شیئر بازار میں منگل کا دن بھی مایوس کن ہی رہا۔ آج کاروبار بند ہونے کے وقت تک بی ایس ای کے سنسیکس میں 1.61 فیصد یعنی 561 پوائنٹ کی گراوٹ درج کی گئی اور نفٹی میں یہ گراوٹ 1.58 فیصد یعنی 168 پوائنٹ رہی۔ گویا کہ کاروبار جب بند ہوا تو سنسیکس 34195 اور نفٹی 10498 پوائنٹس پر تھا۔ اس گراوٹ سے منگل کے روز سرمایہ کاروں کو تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔
منگل کی صبح بازار کھلتے ہی شیئر بازار میں ہنگامے کا عالم دیکھنے کو ملا۔ سنسیکس نے تقریباً 1300 پوائنٹ اور نفٹی نے تقریباً 386 پوائنٹ کی گراوٹ کے ساتھ کاروبار شروع کیا۔ اس گراوٹ کے سبب دیکھتے دیکھتے سرمایہ کاروں کو تقریباً پانچ لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ چہار جانب سے شیئروں کی فروختگی اور بازار میں گراوٹ نے وزارت مالیات کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔ دراصل بازار کی زبردست گراوٹ کے پیچھے بجٹ اعلانات اور خصوصاً طویل مدتی کیپٹل گینس ٹیکس کو مانا جا رہا ہے، لیکن سکریٹری برائے مالیات ہسمکھ ادھیا نے آج ایک بار پھر دہرایا کے شیئر بازار میں جو گراوٹ نظر آ رہی ہے اس کی وجہ بجٹ نہیں ہے بلکہ عالمی بازار میں ہو رہی گراوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ بجٹ والے دن جب ہم نے شیئر مارکیٹ پر طویل مدتی کیپٹل گین ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی مارکیٹ اتنا نہیں گرا تھا۔‘‘
شیئر بازار میں گراوٹ کے اسباب پر بحث ہم بعد میں کریں گے، لیکن پہلے یہ جان لیں کہ اس سے سرمایہ کاروں کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق منگل کی گراوٹ سے سرمایہ کاروں کو تقریباً تین لاکھ کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ اس سے قبل سوموار کو بھی سرمایہ کاروں کو تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ سہنا پڑا تھا۔ لیکن سب سے بڑا نقصان بجٹ کے اگلے دن یعنی 2 فروری (جمعہ) کور ہا تھا جب سرمایہ کاروں کو تقریباً 4.5 لاکھ کروڑ کا خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ اس طرح بجٹ پیش ہونے کے بعد سے اب تک سرمایہ کاروں کو کم و بیش 10 لاکھ کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔ بجٹ والے دن سے منگل تک شیئر بازار کی رفتار کو درج ذیل ٹیبل سے سمجھا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
اب بات کرتے ہیں کہ آخر بازار میں گراوٹ کے دور کا سبب کیا ہے؟ کیا یہ گراوٹ کچھ وقت کی بات ہے یا غیر مستحکم ہے، جیسا کہ حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے؟ کیا بازار کی معیشت اور طریقہ کار میں کوئی بڑا مسئلہ ہے؟
گھریلو شیئر بازار میں گراوٹ کے کئی اسباب ہیں۔ کچھ اسباب گھریلو ہیں، تو کچھ بیرون ملکی۔ ویسے منگل کو بازار میں ہوئی گراوٹ پر حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ عالمی بازار میں گراوٹ کا اثر ہے۔ یہ کچھ حد تک درست بھی ہے۔ لیکن اسی بیان میں وہ بات بھی پوشیدہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے شیئر بازار بنیادی طور پر مضبوط نہیں ہیں بلکہ عالمی معاشی سرگرمیوں سے متاثر ہوتی ہیں۔
اگر حکومت کی ہی بات مانیں تو سوموار کو امریکی شیئر بازار میں گراوٹ کے سبب پوری دنیا کے شیئر بازاروں کی حالت خستہ ہو گئی۔ لیکن یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ امریکہ کے شیئر بازار میں گراوٹ کیوں ہوئی؟ دراصل ایسی خبریں آئی ہیں کہ امریکی فیڈ یعنی امریکہ کا ریزرو بینک شرح سود بڑھانے والا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں جب سے جیروم پاویل کو فیڈرل ریزرو کا چیئرمین بنایا گیا ہے اس وقت سے امریکہ میں پالیسی پر مبنی امور سے متعلق غیر یقینی کا ماحول ہے۔ حالانکہ جنوری میں امریکہ کی بے روزگاری شرح کم ہو کر 4.1 فیصد ہونے کے سبب شرح سود بڑھنے کے امکانات بڑھے ہیں۔ اس وجہ سے ییلڈ بانڈ یعنی اس سے ہونے والے منافع میں عروج آیا ہے۔ بانڈ چونکہ حکومت کی طرف سے جاری ہوتا ہے اس لیے اسے سب سے محفوظ سرمایہ کاری تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں غیر ملکی سرمایہ کار جو امریکہ میں سستی شرح سود پر پیسہ لے کر ہندوستانی شیئر بازار میں خریداری کرتے تھے تو ہندوستانی بازار میں عروج دیکھنے کو ملتا تھا۔ لیکن اب واپس یہ بانڈ مارکیٹ کی جانب رخ کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب انھیں سستا قرض نہیں ملے گا اور ہندوستانی بازاروں پر طویل مدتی کیپٹل گینس ٹیکس کا بوجھ بھی پڑے گا۔ ایسے ماحول میں انھیں یہی بہتر لگتا ہے کہ پیسہ نکال لیا جائے۔
یہ تو رہے بیرون ملکی اسباب۔ اب گھریلو اسباب کی بات کرتے ہیں۔ دراصل اس مرتبہ بجٹ میں طویل مدتی کیپٹل گینس ٹیکس کی واپسی ہو گئی ہے۔ یعنی شیئر بازار میں کاروبار پر اب کئی قسم کے ٹیکس لگ گئے ہیں۔ طویل مدتی کیپٹل گینس ٹیکس کے علاوہ قلیل مدتی کیپٹل گینس ٹیکس، سیکورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس وغیرہ۔ اس کے سبب گھریلو سرمایہ کاروں نے بازار سے پیسہ نکال کر دوسری جگہوں پر سرمایہ کاری شروع کی ہے۔ گھریلوی سرمایہ کاروں کو اب سونا اور رئیل اسٹیٹ میں زیادہ منافع نظر آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بازار کو سرکاری خسارہ بڑھنے کی بھی فکر ستا رہی ہے۔ حکومت اپنے بجٹ میں کہہ چکی ہے کہ اس نے سرکاری خسارے کے نشانے سے زیادہ خرچ کر دیا ہے اور اس کا اثر اب بازار پر صاف نظر آ رہا ہے۔
بازار میں گراوٹ کی ایک اور وجہ جو سامنے آ رہی ہے وہ ہے آر بی آئی کی مانیٹری ریویو یعنی مالیاتی جائزہ۔ آر بی آئی نے منگل سے ہی مالیاتی پالیسی طے کرنے والی کمیٹی کی میٹنگ شروع کی ہے۔ اس میٹنگ میں ہوئے فیصلوں کی جانکاری بدھ کی شام تک ملنے کا امکان ہے۔ لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ریزرو بینک اپنی مالیاتی پالیسی کو سخت بنا سکتی ہے۔ اس کے بھی کئی اسباب ہیں۔ حکومت نے رواں مالی سال کے دوران سرکاری خسارے کے اپنے نشانے کو بڑھا کر 3.5 فیصد کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں فصلوں کی ایم ایس پی بڑھانے کے اعلان سے مہنگائی بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں ریزرو بینک کا زیادہ زور مہنگائی کو قابو میں کرنے پر ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے وہ آنے والے وقت میں شرح سود بڑھا دے۔
ایسے ماحول میں شیئر بازار میں سرمایہ کاروں کو کافی احتیاط برتنے کا امکان ہے۔ منگل کی گراوٹ بھلے ہی عالمی بازاروں کی اٹھا پٹخ کا اثر معلوم ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بازار کمزور بنیاد پر کھڑے ہیں اور ماہرین کے تجزیوں پر بھروسہ کریں تو وہ دن دور نہیں جب بازار اپنی اصلی سطح یعنی 30 ہزار کے آس پاس آ جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined