ایک طرف بینک سے قرض لینے والے کئی امیر اشخاص لاکھوں کروڑ روپے ہضم کیے بیٹھے ہیں اور قرض ادا نہ کیے جانے کے سبب تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے این پی اے میں ڈال دیے گئے ہیں، تو دوسری طرف گزشتہ چار سالوں میں بینکوں نے ’منیمم بیلنس‘ سے کم رقم اکاؤنٹ میں رکھنے کے نام پر غریبوں سے تقریباً 11500 کروڑ روپے وصول کر لیے ہیں۔ گویا کہ غریبوں سے تو اکاؤنٹ میں کم پیسے رکھنے کا ہرجانہ وصول کر لیا جاتا ہے لیکن امراء سے وصولی میں بینک ناکام نظر آتی ہے۔
’منیمم بیلنس‘ کے نام پر کی گئی وصولی کے تعلق سے کچھ حیران کرنے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اور وزارت مالیات کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ سیونگ اکاؤنٹ میں منیمم بیلنس نہ رکھنے پر پبلک سیکٹر بینکوں (پی ایس بی) نے غریبوں سے مالی سال 18-2017 میں تقریباً ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے وصول کیے جب کہ گزشتہ چار سالوں میں 21 پی ایس بی اور پرائیویٹ سیکٹر کے تین بڑے بینکوں یعنی آئی سی آئی سی آئی، ایکسس و ایچ ڈی ایف سی نے اس طرح سے تقریباً 11500 کروڑ روپے کی کمائی کی۔ ان سبھی بینکوں نے یہ ٹیکس اکاؤنٹ سروسنگ کے نام پر اکاؤنٹ ہولڈروں کے نام سے وصول کیے ہیں۔
Published: undefined
یہاں قابل غور ہے کہ بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر اکاؤنٹ میں بینک کے ذریعہ طے کی گئی رقم نہ رکھی جائے تو بینک اس اکاؤنٹ سے جرمانہ کی شکل میں کچھ روپے طے مدت پر کاٹنے لگتے ہیں۔ یہی تھوڑی تھوڑی رقم اکٹھا ہو کر لاکھوں اور کروڑوں روپے کی شکل میں جمع ہو جاتی ہے۔ حالانکہ کچھ اکاؤنٹس پر منیمم بیلنس والی شرط نافذ نہیں ہوتی لیکن ایسے اکاؤنٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے جس میں حد مقرر ہوتی ہے۔
میڈیا ذرائع کی مانیں تو ملک کے سب سے بڑے بینک یعنی ایس بی آئی نے 18-2017 میں تنہا اس ٹیکس کے طور پر 2500 کروڑ روپے وصولے جب کہ ایچ ڈی ایف سی بینک نے منیمم بیلنس نہ رکھنے پر گاہکوں سے 600 کروڑ روپے کمائے۔ بینکوں نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ یہ ٹیکس اکاؤنٹس کے مینجمنٹ کے لیے بنیادی خرچ نکالنے کے لیے وصولے جاتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined