مرکز کی مودی حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا کے درمیان جاری رسہ کشی پر بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے گہری ناراضگی ظاہر کی ہے۔ اس معاملے میں فکر ظاہر کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ریزرو بینک کی خودمختاری سے سمجھوتہ کسی کے حق میں نہیں ہوگا کیونکہ پوری دنیا میں کہیں بھی حکومتیں مرکزی بینک کی آزادی میں مداخلت نہیں کرتی ہیں۔
آئی ایم ایف کے کمیونکیشن ڈائریکٹری گیری رائس نے کہا کہ ’’ہم حالات پر نظر رکھ رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس معاملے میں اپنا قدم پیچھے کھینچنا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’ہم ذمہ داریوں اور جواب دہی پر صفائی چاہتے ہیں اور اس انتظام کے حق میں ہیں۔ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق مرکزی بینک کے طریقہ کار میں حکومت یا صنعتوں کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
Published: 02 Nov 2018, 10:24 AM IST
جب ہندوستان میں مرکزی حکومت اور ریزرو بینک کے جھگڑے پر ان سے خاص سوال کیا گیا تو رائس نے کہا کہ ’’سبھی ممالک میں مرکزی بینک کی آزادی کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم ایسا ہی نظام چاہتے ہیں اور یہ بات ہم کئی ممالک کے ضمن میں کہہ رہے ہیں۔‘‘
غور طلب ہے کہ ریزرو بینک اور مرکزی حکومت کی رسہ کشی گزشتہ جمعہ کو اس وقت سامنے آئی تھی جب آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ آر بی آئی کے طریقہ کار میں حکومتی مداخلت کی جا رہی ہے۔ ورل آچاریہ نے کہا تھا کہ حکومتی مداخلت سے کیپٹل مارکیٹ میں بحران آ سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ریرزرو بینک کی طاقت میں تخفیف سے بینک کے کام پر برا اثر پڑے گا۔ آچاریہ کے تبصرہ کے بعد ہی آر بی آئی اور حکومت کی رسہ کشی کھل کر سامنے آ گئی تھی۔ حالانکہ اس کے بعد ہوئی ایف ایف ڈی سی یعنی معاشی استحکام اور ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں وزیر مالیات ارون جیٹلی اور آر بی آئی گورنر کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ اس کے بعد وزارت مالیات نے ایک وضاحت پیش کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کر کہا تھا کہ حکومت، ریزرو بینک کی خود مختاری کا احترام کرتی ہے اور مرکز اور بینک کے درمیان مفاد عامہ کے ایشوز پر رائے مشورہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جس طرھ ایس گرومورتی کے اصل ادارہ اور آر ایس ایس سے جڑے سودیشی جاگرن منچ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ آر بی آئی گورنر حکومت کے حساب سے کام کریں، یا پھر استعفیٰ دے دیں، اس سے رسہ کشی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
Published: 02 Nov 2018, 10:24 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Nov 2018, 10:24 AM IST