ملک کے زیادہ تر کسانوں کی آمدنی قومی اوسط سے کم ہے، پیداوار کے واجب دام نہ ملنے کی وجہ سے وہ مایوسی ہیں۔ کسان کم پیداوار کرے تو بھی مرتے ہیں اور زیادہ پیداوار کریں تو بھی۔ لبرل ازم کے بعد سے کھیتی باڑی اور دیہی علاقوں کی حالت مسلسل قابل رحم ہوتی جا رہی ہے۔ کسانوں کو منافع دینے کے وعدے پر کس کو صحیح مانیں ، وزیر اعظم کو یا وزیر زراعت کو؟ 2014 کے عام انتخابات میں نریندر مودی نے کسانوں سے خوب وعدے کئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا، ’جب ہم حکومت میں آئیں گے تو کسان کی کاشت میں لگنے والی لاگت کے تمام اخراجات کا حساب لگایا کر اس میں 50 فیصد منافع شامل کر کے میزان جتنا میزان ہوگا وہی ایم ایس پی یعنی کم از کم امدادی قیمت طے کریں گے۔‘راج ناتھ سنگھ نے بھی ہریانہ اسمبلی انتخاب کے دوران انتخابی ریلی سے خطاب میں یہی یقینی دہانی کرئی تھی۔ حال ہی میں جب مندسور میں کئی کسان مظاہرے کے وقت ہلاک ہوئے تو اپوزیشن نے کسانوں اس مدعے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا۔ جواب میں مرکزی وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے بڑی ہی ڈھٹاي کے ساتھ کہا کہ وزیر اعظم نے کبھی لاگت کے اعتبار سے 50فیصد منافع بڑھانے یا ایم ایس پی میں اضافے کا وعدہ کیا ہی نہیں۔ظاہر ہے مودی اور راجناتھ کی انتخابی تقریر یں بھی ’جملے‘ہی ثابت ہوئیں ہیں۔ رادھا موہن وعدوں سے ہی نہیں مکرے بلکہ کسانوں کی خودکشی پر بھی متنازعہ بیان دیا۔ راجیہ سبھا میں 19 جولائی کو رادھا موہن نے کہا کہ خود کشی کے پیچھے محبت، ناکام شادیاں اور جہیز ذمہ دار ہیں۔ملک میں اتنے کسانوں کی خودکشی پر وزیر کا یہ جواب حکومت کے غیر سنجیدہ ہونے کی عکاسی کرتاہے۔ اس وقت زراعت کے شعبے میں بحران چل رہا ہے جس نے خوشحال ریاستوں پنجاب، ہریانہ، مغربی اتر پردیش اور مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر تک تک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ حکومت اسی بات سے خوش ہے کہ اناج کی ریکارڈ پیداوار ہو رہی ہے۔ اگر کسانوں کو زرعی مصنوعات کی مناسب قیمت مل رہی ہوتی تو کیا ان میں اس قدر غصہ ہوتا؟کیا وہ دودھ سے لے کر پھل اور سبزیاں تک سڑک پر پھینکنے کو مجبور ہوتے؟کیا وہ پیاز سے لے کر آلو تک کو لے کر سڑکوں پر مارے مارے پھرتے؟کسانوں کو لاگت میں منافع دینے اور ایم ایس پی میں اضافہ کے حوالے سے موجودہ حکومت نے غور تک نہیں کیاجبکہ سرمایہ داروں کو مسلسل قرض کے سود میں رعایت دی جا رہی ہے۔ تمام صنعتی اقدامات کے باوجود ملک کی 60 فیصد آبادی کی روزی روٹی آج بھی زراعت پر منحصر ہےجس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Published: 05 Aug 2017, 1:54 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Aug 2017, 1:54 PM IST