صنعت و حرفت

پی ایف اکاؤنٹس اور بڑی کمپنیوں کی تقرری میں 30 فیصد کی کمی

روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، ملازمتیں جا رہی ہیں، نئی ملازمتیں نکل نہیں رہی ہیں اور کمپنیاں لوگوں کو۔۔۔۔۔۔

تصویر نو جیون
تصویر نو جیون 

روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، ملازمتیں جا رہی ہیں، نئی ملازمتیں نکل نہیں رہی ہیں اور کمپنیاں لوگوں کو ملازمت دے نہیں رہی ہیں۔ یہ تصویر اس ملک کی ہے جس کے وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ ہر سال ایک کروڑ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ روزگار ملتا کیسے؟ پہلے نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی... ان دو ٹارپیڈو نے ملک کی معیشت کو آئی سی یو میں پہنچا دیا اور روزگار مہیا کرانے والے چھوٹے اور متوسط کاروبار بند ہو گئے۔ بات اتنے پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ یہ کہانی تو غیر منظم شعبہ کی ہے۔ لیکن منظم شعبہ میں بھی ملازمتیں لگاتار کم ہو رہی ہیں۔ ملک کی بڑی بڑی سرکاری کمپنیوں نے بھی ملازمتیں دینے کا کام بند کر دیا ہے اور اپنے یہاں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد اور تقرری میں گزشتہ سالوں سے 33 فیصد کی تخفیف کر دی ہے۔

گزشتہ کچھ مہینے کے ایمپلائی پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن یعنی ای پی ایف او کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پی ایف میں حصہ داری یعنی مستقل جمع کرنے والے ملازمین کی تعداد میں 36 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ کمی کسی ایک شہر کی نہیں بلکہ کئی شہروں میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ای پی ایف او اپنے اراکین کی تعداد میں لگاتار گراوٹ سے فکرمند ہے اور اس نے اپنے علاقائی دفاتر کو پی ایف اراکین کی تعداد کے تئیں محتاط کیا ہے، ساتھ ہی اس تعداد کو بڑھانے کے نئےطریقے اختیار کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔

ای پی ایف او فکر مند اس لیے بھی ہے کیونکہ اس نے رکن کی تعداد بڑھانے کی مہم چلا رکھی ہے۔ اراکین کی تعداد میں 36 فیصد تک کی کمی کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ اتنے ہی فیصد لوگوں کی یا تو ملازمت چلی گئی ہے یا پھر ان کی ملازمت کی شرطیں بدل دی گئی ہیں۔ دونوں ہی صورت میں ملازم کا ہی نقصان ہے۔

پہلے سے ہی بے روزگاری اور روزگار کے کم مواقع کو موضوع بنا کر مودی حکومت کو اپوزیشن لگاتار تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے، اَب پی ایف اراکین کی تعداد میں کمی سے اس کے لیے مزید مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ ٹریڈ یونین انڈین مزدور یونین کے جنرل سکریٹری برجیش اپادھیائے نے ایک نیوز پورٹل سے بات چیت کرتے ہوئے اس سلسلے میں کہا کہ ’’پی ایف اراکین کی تعداد میں گراوٹ کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن یہ باعث فکر ہے۔‘‘ انٹیگریٹیڈ ایسو سی ایشنز آف مائیکرو اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزیز یعنی آئی ایم ایس ایم ای آف انڈیا کے چیئرمین راجیو چاؤلا نے ایک ویب سائٹ کو بتایا کہ منظم سیکٹر میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد میں 10 سے 35 فیصد تک گراوٹ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بھلے ہی اس کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہو لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی بھی ایک اہم سبب ہو سکتا ہے۔

پی ایف اراکین کی تعداد میں کمی ہی صرف اس بات کا اشارہ نہیں دیتی کہ لوگوں کی ملازمتیں جا رہی ہیں۔ ایک نیوز چینل نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے علاوہ سرکاری کمپنیوں میں بھی ملازمتوں کا بحران ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نہ صرف موجودہ ملازمین کی تعداد میں کمی کی جا رہی ہے بلکہ نئے لوگوں کو ملازمت پر رکھا بھی نہیں جا رہا ہے۔

چینل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں یعنی 2014 سے 2017 کے درمیان ملک کی بڑی کمپنیوں نے اس سے پہلے کے تین سال کے مقابلے میں 42053 کم لوگوں کو ملازمت پر رکھا ہے۔ یہ تعداد تقریباً 6 فیصد ہے۔ چینل نے ان سرکاری کمپنیوں میں سے کچھ سے بات بھی کی اور سبھی کمپنیوں نے کم لوگوں کو ملازمت پر رکھنے کے الگ الگ اسباب بتائے ہیں۔ کول انڈیا لمیٹیڈ کا کہنا ہے کہ فی ملازم پروڈکٹیویٹی یعنی پیداوار کے سبب کم لوگوں کو ملازمت پر رکھا جا رہا ہے۔ این ٹی پی سی کا کہنا ہے کہ سرکاری کمپنیوں کے کاروبار میں اضافہ نہ ہونے سے تقرریوں پر اثر پڑتا ہے، کیونکہ فی ملازم لاگت بھی ایک اہم وجہ ہوتی ہے۔ وہیں اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا کا کہنا ہے کہ سرکاری کمپنیوں میں روایتی طور پر ضرورت سے زیادہ ملازم ہوتے تھے، لیکن اب ملازمین کی پیداوار میں اضافہ سے نئی تقرریوں میں کمی آئی ہے۔

اس کے علاوہ او این جی سی، انڈین آئیل کارپوریشن، گیس اتھارٹی آف انڈیا اور بھارت پٹرولیم کارپوریشن جیسی کمپنیوں نے بھی کچھ ایسی ہی دلیلیں دی ہیں۔ چینل کی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں ایم ٹی این ایل نے 33 فیصد، اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا نے 22 فیصد، کول انڈیا نے 17 فیصد اور شپنگ کارپوریشن نے 23 فیصد کم لوگوں کو ملازمت پر رکھا ہے۔

ایسی بدتر صورت حال کے بعد بھی کیا انا میں ڈوبی مودی حکومت خواب خرگوش میں گم ہے؟ کیا مودی حکومت ان اعداد و شمار کو کوئی توجہ نہیں دے گی؟ یا پھر صرف نقلی اعداد و شمار دکھا کر ہی جملے بازی کرتی رہے گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہندوستانی عوام کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ لیکن مودی حکومت اس میں سے کسی کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

Published: undefined

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined