ملک میں لگاتار ہو رہی سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ یعنی ای ڈی کی چھاپے ماری کے اس دور میں آئی فلم ’ریڈ‘ 80 کی دہائی کے ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے۔ ویسے بھی ڈائریکٹر راج کمار گپتا حقیقت پر مبنی فلمیں بنانے کے لئے ہی جانے جاتے ہیں۔ اپنی پہلی فلم ’عامر‘ پھر ’نو ون كلڈ جیسکا‘ سے لے کر ’ریڈ‘ تک، وہ اپنی فلموں میں حقیقی پس منظر کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی ہدایت کاری کی خوبی یہ ہے کہ ان کے کردار ’لاؤڈ‘ یا پھر ’میلوڈرامیٹک‘ نہیں ہوتے بلکہ سادہ ہوتے ہیں جو مضبوط ڈائیلاگ ڈلیور کرتے ہیں۔ آخر کار، اصل زندگی میں بھی تو ہم ایسے ہی لوگوں سے ہی متاثر ہوتے ہیں جو تمام ذاتی اور کاروباری پریشانیوں کے باوجود بغیر شور و غل کے اپنے کام کو محنت اور ایمانداری سے انجام دیتے ہیں۔
راج کمار گپتا نے’ریڈ‘ کے کرداروں کو بھی بحسن و خوبی تیار کیا ہے۔ فلم کے اہم کرداد امئے پٹنائک (اجے دیوگن) ایک بہت ایماندار انکم ٹیکس افسر ہیں جسے ان کی ایمانداری اور سمجھوتہ نہ کرنے والے مزاج کی وجہ سے بار بار ٹرانسفر جھیلنا پڑتا ہے اور اپنے 49ویں ٹرانسفر پر وہ لکھنؤ پہنچ جاتے ہیں۔ لکھنؤ میں رہتے ہیں ’تاؤ جی‘ (سوربھ شکلا) جو سیاسی طور پر بہت طاقتور ہیں اور بھرے پورے خاندان کے ساتھ ان کا پورے شہر میں بہت دبدبہ ہے۔ اب امئے پٹنائک پر یہ ذمہ داری آ جاتی ہے کہ وہ تاؤ جی کے گھر پر چھاپہ مار کر غیر قانون طور پر جمع کی گئی دولت کو ضبط کریں۔
انکم ٹیکس افسرکو تاؤ جی کے گھر کے بارے میں معلومات ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والا ہی ایک فرد دیتا ہے۔ لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم کہ دولت آخر کہاں چھپائی گئی ہے۔ تاؤ جی کے خاندان میں ان کے مغرور اوربے سلیقہ بھائی، بھابھیاں اور ان کی بوڑھی ماں ہیں جو سب سے زیادہ دلچسپ کردار میں ہیں۔ انکم ٹیکس ریڈ کے اکتاہٹ بھرے ماحول کو اپنے ڈائیلاگ اور مزاج کے دم پر خوش نما بنائے رکھتی ہیں۔
اس کے بعد تاؤ جی کے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرنے اور افسر پٹنائک کے چھاپے مارنے کے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ فلم میں تمام کچھ ہے، تاؤ جی کا چھاپہ رکوانے کے لئے دہلی تک پہنچنا اور بہادر افسر پٹنائک کا کسی بھی دباؤ کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا۔ یہاں تک کہ تاؤ جی کے گرگے افسر اور ان کے معاونین پر حملہ بھی کر دیتے ہیں لیکن آفیسر پٹنائک پھر بھی ہار نہیں مانتا۔
یہ فلم ایک تھریلر ہے لیکن کچھ مواقع پر، خاص طور پر جب آپ کو امید ہو کہ یہاں کچھ غیر متوقع اور حیران کر دینے والا ہو سکتا ہے، فلم کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ ایک سنگین ارادے اور خوفناک آئی ٹی افسر کا کردار بہت مؤثر ہے لیکن وہ کہیں کہیں گے بور کرتا ہے۔ تاؤ جی کے کردار میں سوربھ شکلا بھی کافی متاثر کن ہیں لیکن وہ بھی کچھ مواقع پر ایک ولن والی سنجیدگی کھوتے نظر آتے ہیں۔
بہت واضح طور پر تو نہیں لیکن فلم بلاشبہ 80 کی دہائی اور آج کے وقت کا موازنہ کرتی نظر آتی ہے۔ اس میں منشی پریم چند کی مشہور کہانی ’نمک کا داروغہ‘ کا حوالہ بھی ہے اور انتخابات کے دوران بدعنوان سیاستداں جماعتوں کی فنڈنگ کرتے نظر آتے ہیں لہذا وزیر اعلیٰ بھی ان کے دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ کالا دھن، منی لانڈرنگ، حوالہ ریکیٹ وغیرہ کی بھی بات کی گئی ہے جو آج زیر بحث ہیں۔
فلم کے ڈائیلاگ بہتر اور مؤثر ہیں جو ناظرین کی توجہ مرکوز کریں گے۔ ’بیک گراؤنڈ سکور‘ بھی موثٔر ہے۔ حالانکہ پرانے لکھنؤ کے پس منظر میں پنجابی گیت بے اثر نظر آتے ہیں۔ اجے دیوگن اور اليانا ڈی کروز کے درمیان رومانس کا ہلکا سا فلیور بھی فلم کے موڈ میں فٹ نہیں بیٹھتا اور یہ دراصل فلم کی رفتار کو سست کر دیتا ہے۔
80 کی دہائی میں انکم ٹیکس کے چھاپوں پر مبنی یہ فلم ایسے وقت میں آئی ہے جب بدعنوانی، حب الوطنی، ایمانداری اور یہاں تک کہ کالا دھن جیسے الفاظ سیاسی تناظر میں نئے معنی ڈھونڈ رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا آج کے ناظرین اس ایمانداری اور حب الوطنی کی ’ڈوز‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے یا نہیں۔
Published: 19 Mar 2018, 8:38 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Mar 2018, 8:38 AM IST