بالی ووڈ

ہندی سنیما کا سنگ میل۔ نواز الدین

ہندی سنیما کا سنگ میل :نواز الدین

Getty Images
Getty Images 

نواز الدین صدیقی ہندی فلم کے ہیرو کی شبیہ میں کہیں فٹ نہیں بیٹھتے۔ نہ تو ان کے پاس گورا رنگ ہے، نہ ہی اونچا قد اور نہ ہی دم دار آواز۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود جب بھی وہ پردے پر آتے ہیں، یا جب بھی ان کی کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی ہے تو ناظرین کی دلچسپی انہیں سنیما ہال تک کھینچ ہی لاتی ہے۔

نواز الدین کی تازہ فلم ’بابو موشائےبندوق باز ‘ریلیز سے قبل ہی اپنے مؤثر پوسٹروں اور سنسر بورڈ سے تنازعہ کے حوالے سے زیر بحث رہی ہے۔ اسی دوران گوری جلد کے تعلق سے انہوں نے ایک طنزیہ ٹوئٹ کیا جس سے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ فلم انڈسٹری میں گوری جلد کے حوالے سے کتنا تعصب پایا جاتا ہے۔ ٹوئٹ کے بعد نواز توجہ کا مرکز بنے اور سوشل میڈیا پر انہیں زبردست حمایت حاصل ہوئی۔ظاہر ہے ان سب باتوں کے سبب اس فلم کو باکس آفس پر ٹھیک ٹھاک کمائی کرنے کی امید پختہ ہو گئی جب کہ فلم نا قدین کے ذریعہ اس کازیادہ مثبت تجزیہ نہیں کیاگیا ۔

Published: 27 Aug 2017, 9:18 AM IST

لیکن فلم تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ نواز نے اپنا کردار بخوبی اداکیا ہے۔ ویسے جس طرح کا رول انہیں اس فلم میں ملا ہے ، اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں گینگسٹر کا، ایسے کردار وہ پہلے بھی ادا کر چکے ہیں (گینگز آف واسے پور کو کون بھول سکتا ہے بھلا!)۔لیکن ہر چھوٹے بڑے کردار کو پوری ایمانداری اور شدت سے ادا کرنا نواز کی خصوصیت رہی ہے۔ ’تلاش‘ میں عامر خان کے مؤثر کردار اور کرینا کپور کی خوبصورتی کے باوجود نواز الدین کے کردار تیمور کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

1999 میں عامر خان کی فلم ’سرفروش‘ میں ایک مختصر کردار سے آغاز کرنے کے باوجود نواز الدین کو فلمی دنیا میں کام پانے کے لئے کافی جد و جہد کر نی پڑی۔ 2017 میں انوراگ کشیپ کی بلیک فرئیڈے میں اہم کردار ادا کرنے اور اس کے لئے تعریف اور انعام و اکرام حا صل کرنے کے بعد بھی نواز کی راہ آسان نہیں ہوئی۔ 2012 میں گینگز آف واسے پور کے بعد ہی نواز کو اصل شہرت حاصل ہوئی۔

بہرحال ایک بہترین اداکار ہونے کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نواز الدین کی شہرت انہیں محض ان کی قابلیت پر ہی حاصل ہوئی ہے۔

گزشتہ کچھ برسوں میں ہندی سنیما کا مزاج بھی تبدیل ہوا ہے۔ ملٹی پلیکس کلچر نے سنیما کے اقتصادیات کو تو بدلا ہی ہےسا تھ ہی ایک مخصوص قسم کے سنیما کو بھی جگہ ملی ہے جسے ہم نہ تو آرٹ سنیما کہتے ہیں نہ ہی متوازی سنیما (جیسا کہ 70 کی دہائی میں چلن تھا کہ کمرشیل سنیما اور آرٹ سنیما کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی تھی، مانو آرٹ سنیما باکس آفس پر کوئی کمائی ہی نہیں کر سکتا ہو)آج کے نئے طرز کے سنیما کو ’نیش سنیما(عمدہ سنیما) ‘ کا نام ملا ہے یعنی نئے اور نئی اور تجرباتی پلاٹ پر بنا سنیما جو یقینی طور پر ایک خاص طبقہ کے ناظرین کو متوجہ کرتا ہے لیکن عام ناظرین میں بھی پسند کیا جا سکتا ہے۔

اس زمرے کے سنیما میں نئے اور قابل اداکاروں کو بھی جگہ ملی ہے ورنہ راج کمار راؤ، سوشانت راجپوت، وکی کوشل، سورا بھاسکر، ریچا چڈھا، نواز الدین صدیقی جیسے کافی قابل اداکاروں کو ہندی سنیما میں ’اسٹرگلرز‘ یا دوئم درجے کے کردار ہی ادا کرنے پڑتے۔

چونکہ آج سنیما میں اگر رئیس اور ڈان جیسے ہیرو کی جگہ ہے تو پان سنگھ تومر، فیضل خان (گینگس آف واسے پور)، لیاک (بدلہ پور) اور چاند نواب (بجرنگی بھائی جان) اور دشترتھ مانجھی جیسے اینٹی ہیرو کی بھی۔

دراصل منفی ہیرو یا اینٹی ہیرو کے تجربے کرنے کی جو پہل شاہ رخ نے 90 کی دہائی میں کی تھی، اسے نواز کے ساتھ فروغ حاصل ہوا ہے۔ لیکن ابھی بھی ہندی سنیما کوطرح طرح کے کرداروں سے تجربے کرنے، کہانی گوئی اور فلم بنانے کے نئے طریقوں کو اختیار کرنے کا طویل سفر طے کرنا باقی ہے ۔ مگر یہ یقیناً کہا جا سکتا ہے کہ اداکاری میں نواز اور ہدایت کاری میں انوراگ کشیپ سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔

Published: 27 Aug 2017, 9:18 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 27 Aug 2017, 9:18 AM IST