فلم ’نوٹ بُک‘ظاہری طور پر کشمیر میں سرحدی اور دوردراز سے گاؤں کے ایک چھوٹے سے اسکول کے ارد گرد گھومتی ہے اور بہت خوبی کے ساتھ سبھی متنازعہ اور حساس ایشوز سے بچتے ہوئے صرف رومانس اور تعلیم پر ہی فوکس کرتی ہے۔ یہ اس فلم کی خوبی ہے۔ فلم کی سیٹنگ بھی پوری طرح سے رومانی ہے... خواب، تنہائی، کچھ اداس لیکن امید سے بھری ہوئی۔
Published: undefined
آج کے شور شرابے اور نمائشی رومانس کے برعکس بے شک ’نوٹ بک‘ ایک نازک، جذباتی اور خواب سے بھرے رومانس کا تازہ ترین چہرہ پیش کرتی ہے۔ حالانکہ اس میں آپ کو پرانے زمانے کی ہندی فلموں جیسا احساس بھی ہوگا۔ فلم میں بچوں کے کردار معصومیت بھرے ہیں اور اسے مزید دلچسپ بناتے ہیں۔ کہانی بہت سہل ہے، ایک تنہا سا نوجوان فوج کی ملازمت چھوڑ کر دور دراز کے گاؤں کے ایک چھوٹے سے اسکول میں ملازمت کر لیتا ہے۔ الگ تھلگ گاؤں میں ایک جھیل کے کنارے بنے اس اسکول میں اسے اپنے سے پہلے یہاں کام کرنے والی ٹیچر کی ایک نوٹ بُک ملتی ہے جسے پڑھ کر وہ خود کو اپنے اور اس ٹیچر کے قریب محسوس کرنے لگتا ہے جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس رومانی ماحول کو کچھ مزاحیہ لمحے مزید چمکدار بناتے ہیں۔ سونو نگم کے پرانے مشہور نغمہ ’اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا‘ کا ایک جگہ بیک گراؤنڈ میں استعمال بہت اثردار معلوم پڑتا ہے۔
Published: undefined
دراصل یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے آپ پڑھنا بہتر سمجھیں گے۔ لیکن ہدایت کار نتن ککڑ کی تعریف کرنی چاہیے کہ انھوں نے ایسی کہانی کو پردے پر خوبصورتی سے اتارا۔ اس جھیل کے کچھ ٹاپ اینگل یعنی اوپری زاویے سے لیے گئے مناظر منظوم معلوم پڑتے ہیں۔ اگر آپ نے اونیر کی ’کچھ بھیگے الفاظ‘ جیسی فلمیں دیکھی ہیں اور آپ کو یہ فلمیں پسند نہ بھی آئی ہیں تو آپ کو ’نوٹ بُک‘ اچھی لگے گی۔
Published: undefined
پرنوتن ایک آف بیٹ قسم کی اداکارہ لگتی ہیں۔ فلم میں انھیں بغیر کسی گلیمر کے پیش کیا گیا ہے اور اس کردار میں وہ فٹ بیٹھتی ہیں۔ ظہیر اقبال بھی اثردار ہیں۔ لیکن ان کی آواز کمزور ہے۔ انھیں اس پر محنت کرنی ہوگی اور کچھ جگہوں پر لگتا ہے کہ وہ کیمرے کے تئیں کچھ زیادہ حساس ہیں۔ معظم بھٹ ظہیر سے زیادہ منجھے ہوئے اداکار نظر آتے ہیں۔
Published: undefined
فلم کی موسیقی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ’بھومرو‘ اور ’میں سفر میں ہوں کھویا نہیں‘ اچھے گانے ہیں اور دیر تک ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی اور اس ’فیل گُڈ‘ رومانی فلم کے دوران کچوٹتی رہی کہ اس فلم میں اتنی اہمیت رکھنے والی نوٹ بُک جو دراصل ہندی میں ہے، اسے رومن رسم الخط میں کیوں لکھا گیا؟ کیا ہدایت کار یہ کہنا چاہتا ہے کہ کشمیریوں کو ہندی نہیں آتی (خاص کر ان کشمیریوں کو جو پڑھے لکھے ہیں اور پڑھائی کے لیے باہر بھی گئے ہیں)، یا پھر دیوناگری میں لکھنا (بے شک ہدایت کار کے لیے) کچھ زیادہ پرانا فیشن ہے؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined