آج جب ہم مینا کماری کو ان کی سالگرہ پر اس لئے ہم یاد کر رہے ہیں کیونکہ وہ فلمی دنیا کی ایک بے مثال اور شاندار اداکارہ تھیں لیکن اپنی زندگی میں جو مقام حاصل کیا اس کے لئے ان کو زندگی کے کن کن مراحل سے گزرنا پڑا، اس کو سننا بھی آسان نہیں ہے۔ ان کو’ ٹریجڈی کوین‘ کہا جاتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی باہر سے نظر آنے والی کامیاب اور خوبصورت زندگی ٹریجیڈیز (سا نحات) سے بھری ہوئیں تھیں۔
مینا کماری کے ہاتھوں لکھی یہ سطور ’میرا ماضی‘ جو ان کی پوری زندگی کی عکاس ہے۔
’’ میرا ماضی
میری تنہائی کا یہ اندھا شگاف
یہ کے سانسوں کے طرح میرے ساتھ چلتا رہا
جو میری نبض کی مانند میرے ساتھ جیا
جس کو آتے ہوۓ جاتے ہوۓ بے شمار لمحے
اپنی سنگلاخ انگلیوں سے گہرا کرتے رہے، کرتے گئے
کسی کی اوک پا لینے کو لہو بہتا رہا
کسی کو ہم نفس کہنے کی جستجو میں رہا
کوئی تو ہو جو بے ساختہ اسکو پہچانے
تڑپ کے پلتے،اچانک سے پکار اٹھے
میرے ہمشاخ،میرے ہمشاخ
میری اداسیوں کے حصہ دار
میرے ادھورے پن کے دوست، میرے اکیلے پن
تمام زخم جو تیرے ہیں
میرے درد تمام
تیری کراہ کا رشتہ ہے میری آہوں سے
تو اک مسجد - ویران ہے، میر تیری اذان
اذان جو اپنی ہی ویرانگی سے ٹکرا کر
ڈھکی چھپی ہوئی بیوہ زمین کے دامن پر
پڑھے نماز خدا جانے کس کو سجدہ کرے!!‘‘
Published: undefined
پوری نظم ’میراماضی‘ خود مینا کماری کی آواز میں اس ویڈیو میں سنیں۔
غربت کی وجہ سے جس بچی کو اس کے والد نے پیدا ہوتے ہی ایک یتیم خانہ کے دروازہ پر اس لئےخاموشی سے چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کے پاس اس بچی کی کفالت کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اپنے ظالمانہ عمل کے بعد جب اس بدنصیب والد کا دل نہیں مانا اور وہ واپس یتیم خانہ کے دروزہ پر آیا اور دیکھا کہ بچی ابھی بھی وہیں پر ہے اور کسی نے اس کو اٹھایا نہیں اور وہ رو رہی ہے تو اس کی روح کانپ اٹھی ۔جب اس نے بچی کو گود میں اٹھایا تو اس کو اپنے اوپر اتنی ملامت ہوئی کیونکہ اس بچی کے جسم سے لال چونٹیاں لپٹی ہوئی تھیں ۔ جس بچی کا دنیا میں استقبال ایسے ہوا ہو تو اس کی ٹریجیڈیز کے بارے میں کیا کہنا ۔ اس بچی کا یہ غم کوئی بڑی خوشی ہی دور کر سکتی تھی۔ لیکن خوشی بھی اس کو ہمیشہ غم کے ساتھ ہی ملی اور زندگی نے اس بچی کو نام دیا، شہرت دی، پیسہ دیا ، دوست دئیے ،لیکن ان سب کے ساتھ پہاڑ جیسے غم بھی ملے۔
Published: undefined
اقبال بانو اور علی بخش کی مہ جبین ہی بڑے ہو کر مینا کماری بنی ۔ گھر کی معاشی مجبوریوں نے اس بچی کا بچپن اسی طرح چھین لیا جس طرح پیدا ہوتے ہی وہ خوشیاں اور وہ گود جو والدین سے پیدا ہونے والے اپنے بچے کو ملتے ہیں۔ بچپن میں ہی فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار کرنے لگی اور گھر کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بن گئی ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ بچی ایک اداکارہ بن گئی اور اپنی تعلیم حاصل کرنے کے خوابوں کو ایسے فراموش کر دیا جیسے یہ خواب دیکھے ہی نہ ہوں ۔پھر اس مہ جبین نے اپنی اداکاری کے سفر میں وہ مقام حاصل کیا جس کی وجہ سے آج ہم اس کے بارے میں تحریر کرتے ہوئے بھی فخر محسوس کر رہے ہیں ۔
1952 میں ان کی ایک فلم آئی ’بیجو باورہ ‘ اور یہ وہ فلم تھی جس نے مینا کماری کو مینا کماری بنا دیا ۔ مینا کماری نے 21 سال کی عمر میں خاندان کی مرضی کے خلاف اپنے سے دو گنی عمر کے کمال امروہوی سے محبت کی شادی کر لی۔ مینا کماری ،کمال امروہوی کی شاعری کی پرستار تھیں۔ اس شادی سے مینا کماری کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا یہاں تک کہ وہ ماں بھی نہیں بن سکیں۔
پہلے وہ باپ کے اشاروں پر کٹھ پتلی بنی ہوئی تھیں اور شادی کے بعد ان کی باگ ڈور ان کے شوہر نے سنبھال لی ۔ ان کی آمدنی کہاں جاتی تھی اور کمال امروہوی اس کا استعمال کس طرح کرتے تھے یہ جاننے کی نہ تو مینا کماری نے کبھی کوشش کی اور نہ ہی کمال امروہوی نے انہیں کبھی یہ بتایا۔ آہستہ آہستہ ایک کامیاب اداکارہ اور ایک مشہور فلم ساز کے درمیان انا کا ٹکراؤ ہونے لگا جس کے سبب مینا کماری و کمال امروہوی کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہو گیا۔
فاصلے بڑھنے سے قبل مینا نے کمال کے لئے ’دائرہ ‘ نامی فلم میں کام کیا۔ فلم تو کامیاب نہیں ہو پائی لیکن اپنی باکمال اداکاری کی بدولت مینا کماری ٹریجیڈی کوین ضرورکہلانے لگیں۔ فلم ’پرینیتا ‘ میں بھی سنجیدہ اداکاری کے جوہر سے مینا کماری نے سب کو حیران کر دیا۔ بعد ازاں مینا کماری کو مایوس، جذباتی اور قسمت کی ماری خواتین کے کرداروں کے لئے مثالی قرار دیا جانے لگا۔ چراغ کہاں روشنی کہاں، دل اپنا اور پریت پرائی، صاحب بی بی اور غلام، بھابھی کی چوڑیاں، دل ایک مندر اور میں چپ رہوں گی جیسی فلموں سے مینا کماری نے حساس ناظرین کو خوب رلایا۔
کمال امروہوی کی بے رخی کے دور میں ہی بھارت بھوشن ، دھرمندر، فلمکار ساون کمار اور گلزار سے مینا کماری کی قربتیں بڑھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی انہیں وہ سکون نہیں دے سکا جس کی انہیں تلاش تھی۔ آخر کار مینا کماری نے شراب کو ہی اپنا دوست بنا لیا۔
Published: undefined
بچپن سے کام کے بوجھ نے مینا کماری کو زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا، جس کا تا حیات انہیں ملال بھی رہا۔ لیکن گھر کے اردو کےماحول میں وہ کب شعر کہنے لگیں انہیں احساس بھی نہیں ہوا۔ مینا کماری کی کمال امروہوی میں دلچسپی کی ایک وجہ ان کی شاعری بھی تھی۔
مینا کماری اور کمال امروہوی کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ مینا نے ان کا گھر چھوڑ دیا۔ اس وقت تک کمال امروہوی نے فلم ’پاکیزہ‘ شروع کردی تھی ، فلم کا کام بند ہوگیا۔ مینا کماری نے خود کو شاعری اور شراب کے حوالہ کر دیا۔ اب انہوں نے فلموں میں بطور معاون اداکارہ بھی کام کرنا شروع کر دیا ۔’دشمن‘ اور ’میرے اپنے‘ ایسی ہی فلمیں تھیں جن میں مینا کماری نے عمر دراز خاتون کا کردار ادا کیا۔ دریں اثنا نرگس اور سنیل دت نے پاکیزہ فلم کی شوٹنگ کے کچھ حصے دیکھے۔ انہیں فلم بہت پسند آئی اور انہوں نے فلم کو مکمل کرانے کا عہد کیا۔ آخر کار کمال امروہوی اور مینا کماری کے درمیان مفاہمت کرانے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح فلم پاکیزہ مکمل ہو پائی اور یہ فلم مینا کماری اور کمال امروہوی کی زندگی کا نہیں بلکہ ہندوستانی سنیما کی تاریخ کا بھی سنگ میل ثابت ہوئی۔
پاکیزہ ریلیز ہونے کے ہفتہ بھر بعد ہی تنہا زندگی سے لڑتے لڑتے مینا کماری 31 مارچ 1972 کو ہار گئیں اور دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئیں۔ جانے سے قبل مینا کماری بالی ووڈ سنیما کے آسمان کا ایسا ستارہ بن کر نمودار ہوئیں کہ موت کے 46 سال بعد بھی ان کی چمک پھیکی نہیں پڑ سکی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز