مجھے ہمیشہ لگتا رہا کہ عرفان خان سے میرا ایک ذاتی ربط ہے۔ نیشنل اسکول آف ڈراما میں ان کا گریجویشن پلے تھا 'لال گھاس پر نیلے گھوڑے'۔ یہ اس وقت کے مشہور روسی ڈرامہ نگار میخائل شاتروو کے ڈرامہ کا ترجمہ تھا جسے پیش کیا گیا۔ یہ میری زندگی کا وہ پہلا ڈرامہ تھا جس کا میں نے تجزیہ لکھا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس سے پہلے تھیٹر یا ڈراموں سے لگاؤ نہیں تھا۔ لیکن کبھی آفیشیل طور پر تجزیہ نہیں کیا تھا۔ پہلی بار عرفان خان کو اسٹیج پر دیکھا اور محسوس ہوا کہ اس اداکار میں ایک عجیب سی تپش ہے۔ اکثر اسٹیج پر اداکاروں کی توانائی آپ کو متاثر کرتی ہے، لیکن عرفان خان کی اداکاری میں ایک بے حد گہری اور انسانی تپش تھی، جو ہر ناظر کو ذاتی طور پر متاثر کرتی تھی۔
Published: 29 Apr 2020, 9:11 PM IST
پردے پر بھی ان کی اداکاری کی یہی خاصیت رہی۔ دہلی میں ایک دو بار کی چھوٹی ملاقاتیں یاد ہیں جو بالکل اہم نہیں تھیں۔ دبلا پتلا یہ شخص میری طرح کم ہی بولتا تھا۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ اسٹیج پر عرفان کو دیکھ کر یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ایک الگ اور خاص شناخت ضرور بنائیں گے۔
Published: 29 Apr 2020, 9:11 PM IST
اس کے بعد عرفان خان کو جب فلم 'مقبول' میں دیکھا تو دل ہی دل مسکرائی۔ ایک نئی اور ناتجربہ کار تجزیہ نگار ہونے کے باوجود میرا اندازہ بالکل درست تھا۔ اداکاری کی دنیا میں عرفان خان نے اپنی ایک خاص جگہ بنا لی تھی، ایسی جو فلمی دنیا کے ہیرو سے بھی کہیں اہم تھی۔ عرفان ان چنندہ اداکاروں میں سے ہیں جنھیں اداکاری کے لیے بہت سے الفاظ کی ضرورت نہیں رہی، نہ ہی انھیں اپنی شخصیت کے حساب سے بنے ہوئے کرداروں کی ضرورت تھی۔ فلم 'لائف اِن اے میٹرو' کا مونٹی ہو، 'قریب قریب سنگل' کا یوگی، 'نیم سیک' کا اشوک ہو یا پھر 'لنچ باکس' کا ساجن فرنانڈیز، عرفان خان بخوبی ہر کردار میں خود کو ڈھال لیتے تھے۔ کچھ اس طرح کہ اس اداکاری کی ایک خاص گرماہٹ فلم اور کہانی ختم ہونے کے بعد بھی دیر تک آپ کے ساتھ رہ جاتی تھی۔
Published: 29 Apr 2020, 9:11 PM IST
حالانکہ این ایس ڈی کے ڈرامہ کے بعد سے اب تک ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ ایک طویل سفر بھی، لیکن ابھی تو زندگی کے اس مقام پر پہنچا تھا یہ اداکار جب وہ اطمینان سے اپنی مرضی کا کام کر سکتا تھا۔ بطور اداکار ابھی اسے اپنی ہی شخصیت کے بہت سے زاویے تلاش کرنے تھے، محسوس کرنے تھے۔ ابھی تو ہدایت کاری میں بھی لوگوں کو آس تھی کہ عرفان خان بہت اچھا کام کریں گے۔ اس معنی میں ابھی تو سفر کی شروعات ہی تھی اور عرفان خان اچانک دنیا سے رخصت ہو گئے۔
Published: 29 Apr 2020, 9:11 PM IST
یوں تو ان کی بیماری کے بارے میں سال دو سال سے سنتے ہی آ رہے تھے، لیکن بڑا بھروسہ تھا کہ علاج ہو جائے گا۔ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے، ابھی عمر ہی کیا ہے۔ آج جب عرفان خان کے انتقال کی خبر سنی تو دل میں جیسے ایک کسک سی محسوس ہوئی۔ ایسا لگا کہ جب پہلی بار ملی تھی تو کچھ بات کر لینی چاہیے تھی۔ کب، کون آپ کے پاس سے گزرتا ہوا کتنی دور نکل جائے، کیا معلوم۔
Published: 29 Apr 2020, 9:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Apr 2020, 9:11 PM IST