اس میں کوئی شک نہیں کہ مراٹھی فلم ’سیراٹ‘ہندی ریمیک ’دھڑک‘ سے کہیں زیادہ خوبصورت اور اثردار فلم ہے۔ ’سیراٹ‘ کی طاقت بے حد معمولی اور عام لوگوں کے ساتھ پورے ماحول کو خوبصورتی سے فلمانا ہے جب کہ ’دھڑک‘ میں گلیمر کا سہارا لیا گیا ہے۔
وہ لوگ جو چھوٹے قصبوں میں رہے ہیں اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس ماحول میں محبت کرنا کتنا مشکل اور جوکھم بھرا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے دل کی گہرائی میں دبی ناکام محبت کی وہ کہانیاں ہیں جو ذات، مذہب، گوتر وغیرہ کے سبب پنپنے سے پہلے ہی دفنا دی گئیں۔
جنھوں نے ’سیراٹ‘ دیکھی ہے وہ مانتے ہیں اور اس کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ بہت معمولی نظر آنے والے ایکٹر-ایکٹریس نے انھیں جتنا متوجہ کیا اتنا ہی وہ اس سماجی حقیقت سے بھی اندر تک ہل گئے جسے کہانی ہی نہیں بلکہ اس بیہڑ علاقے کے مناظر کے ذریعے ظاہر کیا گیا۔
ہندی فلم میں ایسا نہیں ہے۔ کس طرح گلوکارہ پارتھوی گلوکار مدھوکر کے ساتھ بھاگ جانے کا انتظام کرتی ہے، وہ ساری باتیں بھی فلم میں نہیں ہیں۔ لیکن فلم کے ہدایت کار ششانک کھیتان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کچھ باتوں کو چھوڑ دینے بھر سے ہی فلم کا ’ریمیک‘ نہیں ہوتا ہے۔ زیادہ تر فلم اصل فلم کا ہی ریمیک ہے۔ ہاں، فلم میں راجستھانی گلیمر کی چمک دمک ڈال دی گئی ہے اور پس منظر میں کئی برانڈس کا اشتہار بھی زور و شور سے کیا گیا ہے جس سے فلم کے سبجیکٹ کی سنجیدگی پر اثر پڑتا ہے۔
موسیقی تیار کیا ہے ’سیراٹ‘ کے اصل میوزک ڈائریکٹر کار اجے-اتل نے۔ میوزک میں مٹھاس ہے اور اصل چاشنی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ’جنگاٹ‘ گانے کے سُر کو یکساں رکھا گیا ہے جو مشہور تو ہو گیا ہے لیکن فلم کے راجستھانی بیک گراؤنڈ سے میل نہیں کھاتا۔ ایک بہت مشہور رومانی دھُن میرج ڈی ایمور کے ایک حصے کو لے کر اس میں کچھ بدلاؤ کر کے فلم کی اہم رومانی دھُن کی طرح استعمال کیا گیا ہے۔
کہیں کہیں، خصوصاً انٹرول کے بعد ’دھڑک‘ کی رفتار سست پڑ جاتی ہے لیکن زندگی کی تمام مشکلوں کے باوجود ایک آدمی اور عورت کے ساتھ ساتھ رہنے کی مشقت کی حقیقی کہانی باندھے رکھتی ہے۔ سماجی پیچیدگیاں ان کے مسائل میں مزید اضافہ کرتی جاتی ہیں۔
فلم دیکھتے ہوئے اس شرمندگی کا احساس پیچھا نہیں چھوڑتا کہ آج 21ویں صدی میں ہندوستان میں عشق کرنے جیسے فطری جذبہ میں بھی کس قدر چیلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے ذات، مذہب، اقتصادی طبقہ، فرقہ وغیرہ کے بارے میں سوچو، پھر محبت کرو۔ بار بار یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا ہم اپنی نئی نسل کے لیے نفرت سے بھرا یہ سماج چھوڑ کر جائیں گے جہاں محبت کرنا تقریباً ناممکن ہو؟
آج کی پریم کہانی اور 50 کی دہائی میں اسی اسکرپٹ پر بنی فلموں میں یکسانیت دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ صرف تشدد مزید بڑھ گیا ہے۔ ایک دقیانوسی مرد کی بالادستی والے سماج کی ذہنیت اب تک نہیں بدلی۔ ہمارے سماج کے اختلافات اور بھی گہرے ہو گئے ہیں، ہم اپنی لڑکیوں کو کالج پڑھنے تو بھیجتے ہیں لیکن ہم نہیں چاہتے کہ وہ خود مختار بنے، اپنی خواہش کے مطابق محبت کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ انگریزی فراٹے دار طریقے سے بولے لیکن مخالفت میں آواز نہ اٹھائے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ’سیراٹ‘ کی طرح ’دھڑک‘ بھی بہت لاؤڈ اور انتہائی ڈرامائی نہیں ہے، لیکن مناظر، خاموشی اور یہاں تک کہ کامیڈی کا استعمال اس سانحہ کو اجاگر کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے جس کے لیے ہیرو-ہیروئن پریشان ہیں، جو ’سیراٹ‘ کی خاصیت ہے۔
Published: undefined
ایک پرجوش، معصوم نوجوان کے کردار میں ایشان کھٹر اچھے لگے ہیں۔ بنداس، ضدی اور آزاد خیال ہونے کی کوشش کر رہی لڑکی کے طور پر جانوی میں امکانات تو ہیں لیکن انھیں اپنی آواز اور جذبات کے اظہار پر کافی محنت کرنی ہوگی۔ آشوتوش رانا ایک بہترین اداکار ہیں جن کا پورا استعمال فلموں میں نہیں ہو پایا ہے، یہ فلم بھی اس سے استثنا نہیں۔ ہاں، اَنکت بشٹ نے اداکار کے دوست کا چھوٹا سا کردار بخوبی نبھایا ہے۔
مجموعی طور پر ’دھڑک‘ اوسط فلم ہے۔ صرف ایک طویل خاموشی میں چلا آخری سیکوینس اثردار ہے۔ حالانکہ ہندی فلم ناظرین کے لیے فلم کا اختتام حیران کرنے والا ہے، لیکن رونے دھونے والا اختتام ممکنہ شاید آنر کلنگ کی خوفناکی کو ختم کر دیتا۔
بہر حال، بدقسمتی سے ہم اور آپ دونوں جانتے ہیں کہ ’دھڑک‘ کو اس لیے نہیں دیکھا جائے گا کیونکہ یہ کمرشیل فلم آنر کلنگ کی بات کر رہی ہے بلکہ اس لیے دیکھا جائے گا کیونکہ ناظرین مرحوم اداکارہ شری دیوی کی بیٹی جانوی کو پردے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز