بالی ووڈ

خصوصی پیشکش: ’طلعت اور ان کی وراثت کو سیاست سے دور رکھنے کی ضرورت‘

طلعت محمود کی پیدائش لکھنؤ کے امین آباد میں ہوئی اور انہوں نے زندگی کے ابتدائی سال نوابوں کے اس شہر میں گزارے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں بالخصوص ثقافت میں گنگا-جمنی تہذیب کا عکس نظر آتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 
مضمون نگار: سحر زماں (آزاد سیاسی صحافی)

لکھنؤ کے قیصر باغ میں واقع تاریخی وراثت ’سفید بارہ دری‘ کے باہر بیٹھے 400 سامعین عظیم گلو کار طلعت محمود کا گانا ’تصویر بناتا ہوں‘‘ گا رہے تھے۔ یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ اس گیت کا تعلق بھی فلم ’بارہ دری‘ سے تھا جو 1955 میں منظر عام پر آئی تھی۔ 24 فروری جو طلعت محمود کی 95 ویں سالگرہ ہے، اس موقع پر میرے لئے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ اس ماہ کے ابتداء میں موسیقی کی اس عقیدت کو مجھے ان کے آبائی شہر لکھنؤ لے جانے کا شرف حاصل ہوا ۔ ’جشن طلعت‘ ایک ایسا فنی پلیٹ فارم ہے جس کو میں نے ان کی موسیقی، ان کی فلموں، ان کی شخصیت اور غزل گائکی میں ان کی بے پناہ خدمات کو متعارف کرانے کے لئے وقف کیا ہے۔

ان کی نواسی ہونے کے ناطے میں نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری لی کہ ملک میں ’جشن طلعت‘ جیسی کئی تقریبات کو ان کے لئے وقف کروں۔ گزشتہ سال یہ ایک ایسی چھوٹی سی کوشش سے شروع کیا گیا تھا جس میں موسیقی کے تعلق سے ان کی خدمات کو نوجوان نسل تک لے جایا گیا۔ کالج کے کئی طلباء نے ہماری تقریبات میں ان کے گانے گائے۔ ان نوجوانوں کے لئے موسیقی کی نئی دنیا کا دروازہ کھل گیا تھا۔ ان میں سے جنہوں نے ان کے گانے نہیں گائے انہوں نے ان گانوں پر ڈانس کیا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ آج ہمیں طلعت عزیز، رادھیکا چوپڑا، رشمی اگروال، توصیف اختر، کتھک ڈانسر شوونا نارائن، ودھا لال، رگھو راج، منگلا بھٹ، اداکار سوہیلا کپور جیسی شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے ہمارے اس مقصد میں اپنا تعاون دینے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔ ’جشن طلعت‘ اب ہر تین ماہ میں ایک تقریب کا انعقاد کرتا ہے۔

Published: undefined

لکھنؤ کی تقریب ایسی ساتویں تقریب تھی جس میں غزل کی ملکہ ڈاکٹر رادھیکا چوپڑا شامل ہوئی تھیں۔ ہمارے پارٹنر مہندرا سنت کدا لکھنؤ فیسٹیول‘ کا ماننا تھا کہ لکھنؤ کے باشندوں کے دلوں میں ان کے گیتوں کی ایسی یادوں کا دوبارہ سے پیش کرنا ایک بہترین خیال ہے اور جس طرح اس تقریب کی پذیرائی ہوئی اس سے ثابت ہو گیا کہ واقعی یہ ایک بہترین خیال تھا۔

طلعت محمود کی پیدائش لکھنؤ کے امین آباد میں ہوئی اور انہوں نے زندگی کے ابتدائی سال نوابوں کے اس شہر میں گزارے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں بالخصوص ثقافت میں گنگا-جمنی تہذیب کا عکس نظر آتا ہے۔ ان کی موسیقی اپنے وقت کے عظیم استاد فیاض خان، روشن آرا بیگم جیسی عظیم شخصیتوں کو اپنے گھر پر سن کر ہی پروان چڑھی تھی۔ زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ موسیقی ہی ان کی زندگی کا مقصد ہو گی۔ نوجوانی کے دور میں ہی انہوں نے یہ خبر اپنے والد کو سنا دی تھی کہ وہ گانے کو ہی اپنا پیشہ بنائیں گے۔ لکھنؤ کے اعلی گھرانوں کے لئے یہ بالکل ناقابل قبول بات تھی۔ وہ گانوں سے لطف اندوز تو ہو سکتے تھے لیکن گا نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے بہت چھوٹی عمر میں انہوں نے گھر چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی موسیقی کی کلاسیکل بنیاد کو مضبوط کر نے کے لئے میرس کالج میں داخلہ لیں گے۔ آج یہ میرس کالج لکھنؤ کے بھٹکھانڈے میوزک یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

Published: undefined

1941 میں جب وہ محض 17 سال کے تھے اس وقت انہوں اپنا پہلا گانا لکھنؤ آل انڈیا ریڈیو کے لئے ریکارڈ کروایا۔ کے ایل سہگل کی طرح سنائی دینے والے طلعت محمود نے ’’سب دن ایک سمان نہیں تھے‘‘ گایا جو زبردست مقبول ہوا۔ طلعت محمود نے اپنی شہرت کے عروج میں اس بات کا عتراف کیا کہ اس زمانہ میں ہر کوئی سہگل کی آواز کی نقل کرنے کی کوشش کرتا تھا اور یہ مانا جاتا تھا کہ سہگل سے بڑا کوئی گانے والا نہیں ہے۔

Published: undefined

شروعاتی کامیابی کے بعد طلعت محمود کو گانا گانے کے لئے کلکتہ بلایا گیا۔ 1940 میں کلکتہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر طلعت کو شہرت اور اپنی سچی محبت ملی، انہوں نے بنگالی سیکھی اور تپن کمار کے نام سے گانے گائے۔ یہاں پر ان کی ملاقات للیتا ملک سے ہوئی جن سے ان کی شادی ہوئی۔ وہ بنگالی فلموں کی مشہور اداکارہ تھیں اور طلعت پر فدا ہو گئیں تھیں۔

1950 میں طلعت کو اس وقت کے ٹاپ ڈائریکٹرس نے بمبئی بلا لیا۔ فلم انڈسٹری کا مرکز اب بمبئی منتقل ہو رہا تھا۔ طلعت کا اردو پر عبور اس وقت کی فلموں کی جان تھی لیکن سب کچھ اچھا نہیں تھا کیونکہ کچھ ڈائریکٹرس کے خیال میں طلعت کی آواز میں وائبریشن تھی۔ موسیقی کار انل بسواس تھے جنہوں نے ان کی اس انفرادیت کو پہچانا اور انہوں نے اس کو ان کی طاقت کے طور پر استعمال کیا۔

Published: undefined

طلعت نانا خواتین شیدائیوں میں بہت مقبول تھے۔ یہ بہت کم ہی دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ کسی گانے والے اسٹار کو خون سے لکھے ہوئے خط موصول ہوں۔ جلد ہی وہ وقت آ گیا جب بڑے پروڈیوسر ان کو اپنی فلموں میں اپنے مرکزی ہیرو کے لئے سائن کرنے کے لئے قطار میں کھڑے نظر آئے۔ ان کو اداکار بننے میں جھجک تھی لیکن انہوں نے درجن کے آس پاس فلمیں نوتن، مالا سنہا، شیاما، ثریا اورنادرہ کے ساتھ کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اداکارہ شیاما جنہوں نے طلعت سے محبت ہونے کا اعتراف بھی کیا اور انہوں نے کہا تھا کہ طلعت جیسے اپنے گانوں میں ایک دل آویزشخصیت نظر آتے ہیں ویسے ہی وہ اپنی زندگی میں بھی ہیں۔ شیاما کو جب ایک فلم میں طلعت کی اہلیہ کا کردار ملا تو وہ بہت خوش ہوئی تھیں۔

اپنے کیرئیر کے مختصر سے وقفہ میں طلعت نانا نے گانے بھی گائے، اداکاری بھی کی اور لائیو شوز بھی کیے۔ وہ عالمی شہرت کے مالک تھے اور وہ پہلے بالی ووڈ گلوکار تھے جنہوں نے 1950 سے عالمی دوروں پر جانا شروع کر دیا تھا۔ چاہے وہ دلیپ کمار ہوں جو ’شام غم کی قسم‘ کے اڑتی چلمنوں کے بیچ کھڑے ہوں یا ’جلتے ہیں جس کے لئے‘ میں سنیل دت فون پر نوتن کو دلاسا دے رہے ہوں یا ’جائیں تو جائیں کہاں‘ میں سمندر کے کنارے غم زدہ دیو آنند ہوں، طلعت محمود وہ برانڈ بن گئے تھے جن کے قبضہ میں دل کی دھڑکنیں تھیں اور وہ لازوال اسٹار رہے۔

Published: undefined

لکھنؤ کے ہمارے سامعین کا اس وقت خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا جب انہوں نے اپنے شہر کی اس قدآور شخصیت کی زندگی کے بارے میں سنا۔ ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے منہ کا ذائقہ ضرور خراب کیا اور وہ یہ کہ جہاں سے طلعت محمود نے تعلیم حاصل کی تھی اس یونیورسٹی کی وائس چانسلر شروری سادولیکر نے اس یونیورسٹی میں ’ایک شام‘ کے انعقاد کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ آج ایک نظریہ کی جاگیرداری ہے جس کی وجہ سے ہمارے تعلیمی اداروں میں گنگاأجمنی روایات کو خطرہ ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ ذہن اور مزاج میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ طلعت محمود اور بھٹکھانڈے یونیورسٹی ہماری قومی میراث ہیں اور دونوں کو ہی سیاست سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined