فلم نیا دور (1957)، قانون (1960)، وقت (1965) اور نکاح (1982)، اگر یہ فلمیں ہندوستانی سنیما کا حصہ نہ ہوتیں تو ہندوستانی سنیما کا وقار کچھ کم ضرور ہو جاتا۔ دراصل یہ ساری فلمیں ایک ہی فلم ساز نے بنائی تھیں اور اس فلم ساز کا نام ہے بلدیو راج چوپڑا، جنہیں دنیا بی آر چوپڑا کے نام سے جانتی ہے۔ لدھیانہ میں 22 اپریل 1914 کو پیدا ہوئے بی آر چوپڑا نے لاہور کی پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور صحافت کو ذریعہ معاش بنایا۔ سنیما میں دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے لاہور میں ‘سنے ہیرالڈ‘ کے ساتھ ایک صحافی کے طور پر شروعات کی۔ آہستہ آہستہ فلم ٹیکنالوجی اور فلم کے کاروبار کی اچھی معلومات ہونے کے بعد فلمی دنیا کے لوگوں سے ان کی قربت ہوئی۔ پھر انہوں نے خود اپنی فلم بنانے کے خواب دیکھے۔ لاہور میں ان کی ملاقات آئی ایس جوہر سے ہوئی جن کے پاس ایک کہانی تھی۔ بی آر چوپڑا اور جوہر نے ساتھ مل کر فلم بنانی شروع کر دی۔ 1947 میں لاہور میں فسادات بھڑکنے کی وجہ سے فلم کی شوٹنگ بند ہو گئی اور بی آر چوپڑا اپنے خاندان سمیت دہلی آ گئے۔
دہلی میں انہوں نے ایک سال تک ’دی لیسنر‘ میگزین میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔ فلم بنانے کی خواہش بی آر چوپڑا کے دل سے ابھی تک نہیں نکلی تھی۔ ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں صحافت چھوڑ فلم ہی بنانی ہے۔ ممبئی پہنچنے پر انہیں کئی ایسے واقف کار فلم ساز ملے جو تقسیم ہند کی وجہ سے لاہور چھوڑ کر ممبئی آ پہنچے تھے۔ بی آر چوپڑا نے کافی مشقت کے بعد ایک فلم کی ہدایت کاری کی ذمہ داری سنبھال لی۔ انہوں نے اور دیگر پرکاش نامی شخص نے کروٹ (1949) کی ہدایات کی۔ بھگوان دادا اور لیلا گپتا کی اداکاری والی اس فلم کی موسیقی ہنس راج بہل نے دی تھی۔ لیکن وہ ناکام فلم ثابت ہوئی۔ اس ناکامی کے باوجود بی آر چوپڑا کو خود پر اعتماد تھا کہ اگر موقع ملے تو وہ ایک بہترین فلم بنا کر دکھائیں گے۔
Published: 22 Apr 2018, 1:01 PM IST
انہیں جلد ہی ایک موقع ملا اور انہوں نے اشوک کمار اور ویرا کو ساتھ لے کر فلم افسانہ (1951) کی ہدایت کاری کی۔ فلم کی کہانی خود بی آر چوپٹا نے لکھی تھی۔ اس فلم کی کامیابی نے بی آر چوپڑا کے قدم چومے۔ اس کے بعد انہوں نے شعلے (1953) اور چاندنی چوک (1954) بنانے کے بعد بی آر فلمز کے نام سے اپنی کمپنی قائم کر لی۔ اس کمپنی کی پہلی اہم فلم نیا دور (1957) تھی، یہ فلم اپنے دور کی ہی نہیں بلکہ ہندوستانی فلموں کی تاریخ میں ایک اہم فلم تصور کی جاتی ہے۔ اس فلم میں جدید مشین کاری اور دیہی ثقافت کے ٹکراؤ کو اتنی دلچسپی سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ فلم سنگ میل ثابت ہوئی۔ عام طور پر ہوتا تو یہی ہے کہ ایک ہٹ فلم دینے کے بعد فلم ساز اسی فارمولے پر اگلی فلمیں بھی بناتے ہیں۔ لیکن بی آر چوپڑا نے ایسا کبھی نہیں کیا۔
Published: 22 Apr 2018, 1:01 PM IST
بی آر چوپڑا ہمیشہ روایت سے علیحدہ فلمیں بنانے کے لئے مشہور ہوئے۔ انہوں نے جسم فروشی جیسے مدے پر فلم سادھنا (1958) میں بنائی، تو نا پسند بچے کے درد پرفلم دھول کا پھول (1959) میں پروڈیوس کی، اس فلم کو ان کے بھائی یش چوپڑا نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ سب سے انقلابی کام انہوں نے یہ کیا کہ بغیر گیتوں کے کامیاب فلم قانون (1960) میں بنائی۔ سماجی مسئلے پر جہاں انہوں نے فلم گمراہ (1963) میں بنائی، وہیں سسپنس تھریلر ہمراز (1967) اور فلم دھند (1973) میں بنائی۔ مسلم سماج پر مبنی فلم نکاح کی تخلیق کی تو مزاحیہ ’فلم پتی پتنی اور وہ ‘بھی بنائی۔ عصمت دری کے درد پر مبنی فلم ’انصاف کا ترازو‘ (1980) بھی بی آر چوپڑا کی دین تھی، وہیں سیاسی تھریلر فلم عوام (1987) کو بنانے والے بھی بی آر چوپڑا ہی تھے۔ ان کی تمام فلموں کی خاصیت یہی رہی کہ موضوع چاہے جو بھی رہا ہو لیکن ان کی فلموں کو خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ بی آر چوپڑا اگر کسی کو پسند کر لیتے تو اسے بار بار اپنی فلموں میں موقع دیتے تھے۔ سنیل دت کو جہاں انہوں نے اپنی تین فلموں میں لیا وہیں مہندر کپور کی آوازکا بھی انہوں نے اپنی فلموں میں بار بار استعمال کیا۔
Published: 22 Apr 2018, 1:01 PM IST
فلموں میں ایک طویل اننگز کھیلنے کے بعد بی آر چوپڑا نے ٹیلی ویژن کی طرف رخ کیا اور ’مہا بھارت‘ جیسا مشہور سیریل بنایا۔ حالانکہ انہوں نے ’بہادر شاہ ظفر‘، ’سودا‘، ’عورت ‘اور ’میں دہلی ہوں‘ جیسے سیریل بھی بنائے لیکن ’مہا بھارت‘ نے مقبولیت کی تاریخ رقم کر دی۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ 60 کی دہائی میں بی آر چوپڑا نے فلم انڈسٹری کے ترجمان کے طور پر حکومت اور فلمی دنیا کے درمیان ایک پُراعتماد پل کا کام کیا تھا۔ یہی نہیں قومی فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی فائنانس پالیسی طے کرنے میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بی آر چوپڑا کی مصروفیات تو کم ضرور ہونے لگیں لیکن فلموں سے ناطہ توڑ کر وہ گھر پر خاموش کس طرح بیٹھ سکتے تھے! انہوں نے فلم ’باغبان‘ اور ’بابل‘ کی کہانی لکھی۔ بی آر چوپڑا کو 1998 میں فلموں میں ان کی بہترین کارکردگی کے لئے سنیما کے سب سے بڑے اعزاز ’دادا صاحب پھالکےایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ 5 نومبر 2008 کو اس عظیم فلمساز نے دنیا کو الوداع کہہ دیا۔
Published: 22 Apr 2018, 1:01 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Apr 2018, 1:01 PM IST