ممبئی: کیفی اعظمی کاشمار اردو کے ممتاز ترقی پسند شعرا اور نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ کیفی اعظمی کی ولادت 14 جنوری 1919 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی۔ ان کا اصل نام سید اطہر حسین رضوی تھا اور کیفی تخلص کرتے تھے۔
Published: undefined
کیفی نے ایک خوشحال زمیندار گھرانہ میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد انہیں اعلی تعلیم دلانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے کیفی کا داخلہ لکھنٔو کے مشہور مدرسہ ’’سلطان المدارس‘‘ میں کرا دیا تھا۔ شعرو ادب سے دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ گھر میں علم وادب اور شعر وشاعری کا ماحول تھا۔ ایسے ماحول میں جب انہوں نے آنکھیں کھولیں تو ابتدا ہی سے انہیں شعر وادب سے رغبت ہوگئی۔
کیفی نے محض 11 برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیئے تھے اور وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے، یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔
Published: undefined
ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کے لئے ان کے والد نے انہیں ایک مصرعہ دیا اور اس پر غزل لکھنے کو کہا۔ کیفی نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پوری غزل لکھ ڈالی۔ ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اختر نے اپنی آواز دی۔ غزل کا مطلع یوں ہے:۔
اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتے تھے اس کے لئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا‘‘۔
کیفی اعظمی کبھی بھی اعلی تعلیم کی خواہش مند نہیں رہے۔ مدرسہ میں اپنی تعلیم کے دوران وہاں کے غیرمنظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبا یونین بنائی اور طلبا کے کچھ مطالبات کو لے کر انتظامیہ سے بھی نبرد آزما ہوئے اور مدرسے کے جامد اور دقیانوسی نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور طالب علموں سے ہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔ ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ برس تک چلی۔ اس ہڑتال سے کیفی اعظمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس وقت کے چند ترقی پسند مصنفین ان کی قیادت سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں کیفی میں ایک ابھرتا ہوا شاعر نظرآیا ۔ان لوگوں نے انہیں حوصلہ دیا اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی۔ اس کے بعد ایک طالب علم رہنما اطہر حسین میں ایک شاعر نے کیفی اعظمی کے طور پر جنم لے لیا۔
کیفی کی انقلابی اور احتجاجی طبیعت کی منزلیں ہی کچھ اور تھیں۔ اس طرح کے ماحول نے کیفی کی طبیعت کو اور زیادہ انقلابی بنایا وہ ایسی نظمیں کہنے لگے جو اس وقت کے سماجی نظام کو نشانہ بناتی تھیں۔ لکھنؤ کے اس قیام کے دوران ہی ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ کیفی کی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ لکھنؤ اس وقت ترقی پسند ادیبوں کا ایک اہم مرکز بنا ہوا تھا۔
سال 1942 میں کیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم کے لیے لکھنؤ اور الہ آباد گئے لیکن انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکے پارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور پھر بھارت چھوڑو تحریک میں شامل ہو گئے۔
اس دوران مشاعروں میں کیفی اعظمی کی شرکت جاری رہی۔ چنانچہ سال 1947 میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں بدل گئی۔ آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
شادی کے بعد اخراجات بڑھنے کے سبب کیفی اعظمی نے ایک اردو اخبار کے لیے لکھنا شروع کر دیا جہاں انہیں 150 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ ان کی پہلی نظم ’’سرفراز‘‘لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ انہوں نے روزنامہ اخبار کے لئے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری شروع کی۔ اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور معاشی مشکلوں کے سبب کیفی نے فلموں میں نغمے بھی لکھے۔
Published: undefined
کیفی اعظمی نے سب سے پہلے شاہد لطیف کی فلم ’’بزدل‘‘کے لئے دو نغمے لکھے جس کے عوض انہیں 1000 روپے ملے۔اس کے بعد انہوں نے 1959 میں آئی فلم کاغذ کے پھول کے لئے ’’وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم‘‘جیسا سدا بہار نغمہ لکھا۔ اس کے بعد 1965 میں فلم ’’حقیقت‘‘ کے نغموں بالخصوص ’’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘‘ کی شہرت کے ساتھ وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔
کیفی اعظمی نے فلم ’’گرم ہوا ‘‘کی کہانی ڈائیلاگ اور اسکرین پلے لکھا۔ جس کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلم ’’ہیررانجھا‘‘ کے مکالموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے شیام بینیگل کی فلم ’’منتھن‘‘ کی اسکرپٹ بھی لکھی۔ آہستہ آہستہ کیفی کی فلموں سے وابستگی بڑھتی گئی انہوں نے گانوں کے علاوہ کہانی، مکالمے اور منظرنامے بھی لکھے۔ کاغذ کے پھول، گرم ہوا، حقیقت، ہیر رانجھا جیسی فلموں کے نام آج بھی کیفی کے نام کے ساتھ لئے جاتے ہیں۔ فلمی دنیا میں کیفی کو بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
سجاد ظہیر نے کیفی کے پہلے ہی مجموعے کی شاعری کے بارے میں لکھا تھا ’’جدید اردو شاعری کے باغ میں نیا پھول کھلا ہے۔ ایک سرخ پھول ‘‘ اس وقت تک کیفی ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں ہوئے تھے۔ لیکن ان کی شاعری ابتدا ہی سے ترقی پسندانہ فکر وسوچ کو عام کرنے میں لگی تھی۔ کیفی عملی اور تخلیقی دونوں سطحوں پر تا عمر تحریک اور اس کے مقاصد سے وابستہ رہے ان کی پوری شاعری سماج کے فاسد نظام، جبر و استحصال کی صورتوں اور غلامانہ ذہنیت کے تحت جنم لینے والی برائیوں کے خلاف ایک زبردست احتجاج ہے۔
تقریباً 75 برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجوا ں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سے سامعین کو مسحور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined