جب تک گھر والوں کا دیا نام ’اقبال حسین‘ ان کے ساتھ جڑا رہا وہ زبردست جدوجہد کرتے رہے، لیکن جب انھوں نے اپنا نام ’حسرت جے پوری‘ کر لیا تو وہ گھر گھر پہچانے جانے لگے۔ یہ نام بدل لینا کوئی چمتکار نہیں تھا۔ یہ تو وقت کی بات تھی کہ اقبال حسین کو حسرت جے پوری کے نام سے آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ 15 اپریل 1922 کو جے پور میں پیدا ہوئے حسرت جے پوری کو فلمی نغمہ نگار کی شکل میں پہچانا جاتا ہے، حالانکہ انھوں نے غیر فلمی شاعری بھی کی جو ان کی فلمی شہرت کی روشنی میں دھندلی سی پڑ گئی۔
لڑکپن کے جس دور میں پیار کا پرندہ بولتا ہے اس عمر میں حسرت کو بھی اس پرندے کی آواز سنائی دی۔ انھیں پڑوس کی ایک لڑکی سے پیار ہو گیا۔ اس وقت تک حسرت شاعری کرنے لگے تھے۔ ان کے دادا فدا حسین شاعر تھے اور ان سے ہی حسرت نے شاعری کا ہنر سیکھا۔ خیر، جب حسرت کو پیار ہوا تو انھوں نے ’پریم پتر‘ بھی لکھا اور اس خط کا آغاز اس طرح کیا ’’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر کہ تم ناراض نہ ہونا۔‘‘ بعد میں انھیں لائنوں کی بنیاد پر حسرت نے پورا نغمہ لکھا جسے شنکر جے کشن نے موسیقی دے کر فلم ’سنگم‘ (1964) کا بے حد مقبول نغمہ بنا دیا۔
Published: undefined
حسرت کی پڑھائی جے پور میں ہوئی۔ جوان ہونے سے پہلے ہی شاعری کرنے لگے، لیکن شاعری سے پیٹ پالنا ممکن نہیں تھا۔ 18 سال کی عمر میں روزگار کی تلاش میں ممبئی جا پہنچے۔ کچھ دن ایک کپڑا مل میں کام کیا، کچھ اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کیے اور آخر کار بس کنڈکٹر کی ملازمت کر لی۔ حسرت شاعری تو کرتے ہی تھے، اس لیے وہ مشاعروں میں بھی شامل ہونے لگے۔ بہت سادہ زبان میں شاعری کرنے والے حسرت کو ایک مشاعرہ میں پرتھوی راج کپور نے سنا۔ انھوں نے حسرت کو اِپٹا کے دفتر میں بلایا۔ راج کپور اپنی ہدایت کاری میں بن رہی فلم ’برسات‘ کے لیے نغمہ نگار کی تلاش میں تھے۔ شیلندر کو وہ اِپٹا کی تقریب میں سن چکے تھے۔ راج کپور نے حسرت سے بھی ان کا کلام سنا اور پھر شنکر، جے کشن، شیلندر، حسرت اور راج کپور کی ایک ٹیم بن گئی۔ راج کپور کی ہدایت کاری میں بنی پہلی فلم ’برسات‘ (1949) سے شروعات کر اس ٹیم نے ہندی سنیما کو ڈھیروں یادگار گیت دیے۔ اس فلم میں حسرت نے پہلا فلمی نغمہ لکھا- ’جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے...‘۔
Published: undefined
اس وقت فلموں میں فلم کے نام پر مبنی نغمے یعنی ٹائٹل سانگ شامل کرنے کا چلن تھا۔ حسرت ٹائٹل سانگ لکھنے میں ماہر تھے۔ ان کے لکھے ٹائٹل سانگ پر ایک سرسری نظر ڈالیے- رات اور دن دیا جلے (رات اور دن)، گمنام ہے کوئی (گمنام)، رخ سے ذرا نقاب ہٹا دو میرے حضور (میرے حضور)، دنیا کی سیر کر لو انساں کے دوست بن کر – اراؤنڈ دی ورلڈ اِن ایٹ ڈالر (اراؤنڈ دی ورلڈ)، این ایوننگ اِن پیرس (این ایوننگ اِن پیرس)، کون ہے جو سپنوں میں آیا، کون ہے جو دل میں سمایا، لو جھک گیا آسماں بھی، عشق میرا رنگ لایا (جھک گیا آسماں)، دیوانہ مجھ کو لوگ کہیں (دیوانہ)، تیرے گھر کے سامنے اک گھر بناؤں گا (تیرے گھر کے سامنے)، دو جاسوس کریں محسوس، یہ دنیا بڑی خراب ہے (دو جاسوس)، میں ہوں خوش رنگ حنا (حنا)۔
Published: undefined
اپنے 40 سال کے فلمی کیریر میں حسرت نے 350 فلموں کے لیے تقریباً 2000 نغمے لکھے۔ اس دوران انعامات اور اعزازات پھولوں کی طرح حسرت کی جھولی میں گرتے رہے۔ انھیں دو مرتبہ فلم فیئر کی ٹرافی بھی ملے۔ پہلی بار فلم ’سورج‘ کے نغمہ ’بہاروں پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘ کے لیے اور پھر فلم ’انداز‘ کے نغمہ ’زندگی ایک سفر ہے سہانہ‘ کے لیے۔ حسرت کے نغموں کی خاصیت ان کی سادہ زبان ہے۔ مکیش کے لیے تو حسرت نے کئی نایاب نغمے لکھے تھے، مثلاً- چھوڑ گئے بالم مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے (برسات)، ہم تم سے محبت کر کے صنم روتے بھی رہے (آوارہ)، آنسو بھری ہیں یہ جیون کی راہیں کوئی ان سے کہہ دے (پرورش)، دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی (تیسری قسم)، جانے کہاں گئے وہ دن (میرا نام جوکر)۔
Published: undefined
بہر حال، ہر شخص کا ایک دور ہوتا ہے، حسرت کا بھی ایک دور تھا۔ شیلندر اور جے کشن کی موت کے بعد وہ بہت تنہا محسوس کرنے لگے اور راج کپور کی موت کے بعد تو ان کی حالت بغیر پروں والے پرندے جیسی ہو گئی۔ 17 ستمبر 1999 کو اپنی موت سے پہلے کئی سال تک حسرت نے گمنامی کی زندگی گزاری۔ فلم ’پگلا کہیں کا‘ (1970) میں حسرت نے ایک نغمہ لکھا جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ ’’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے، جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے...‘۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز