سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے ہفتہ 8 دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یمن میں، جو پہلے ہی عرب دنیا کا غریب ترین اور پسماندہ ترین ملک تھا، طویل عرصے سے جاری جنگ پہلے ہی ہزارہا انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکی ہے جبکہ کئی لاکھ شہری بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
یہی نہیں بلکہ اس جنگ اور جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ملکی معیشت کی شدید حد تک بحرانی صورت حال کے باعث قریب 16 ملین یمنی باشندوں کو اشیائے خوراک کی دستیابی کے حوالے سے انتہائی نوعیت کے عدم تحفظ کا سامنا بھی ہے۔ یہ تعداد یمن کی مجموعی آبادی کا 53 فیصد بنتی ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ یہ امر اپنی جگہ بہت تشویشناک ہے کہ اگر ان ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یمنی شہریوں کے لیے خوراک کی دستیابی کو یقینی نہ بنایا گیا، تو اس جنگ زدہ ملک کے وسیع تر علاقوں میں شدید نوعیت کے قحط سے بچنا تقریباﹰ ناممکن ہو جائے گا۔
Published: undefined
دو برسوں میں پہلی بار امن مذاکرات
روئٹرز کے مطابق ایک مفصل جائزے کے نتائج پر مشتمل یہ رپورٹ آج ہفتے کے روز ایک ایسے وقت پر جاری کی گئی، جب اقوام متحدہ کی کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ دو برسوں میں پہلی بار یمنی جنگ کے متحارب فریق مذاکرات کی میز پر جمع ہو چکے ہیں۔ ان مذاکرات کی اہم بات یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کاموں میں مصروف بہت سے ادارے اور تنظیمیں یہ کہہ چکے ہیں کہ یمن کی صورت حال عرصہ ہوا دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن چکی ہے، جس کے خاتمے کا واحد راستہ جنگی فریقین کے مابین مذاکرات اور مکالمت کے نتیجے میں قیام امن ہی ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
یہ جائزہ خود یمنی حکام نے بین الاقوامی ماہرین اور انٹرنیشنل آئی پی سی سسٹم کی مدد سے مکمل کیا۔ اس جائزے کے نتائج کے مطابق یمن میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد شہریوں کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے جس شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے، اس کی وجہ صرف جنگ ہی نہیں بلکہ وہ مہنگائی بھی ہے، جس کا سبب جنگ اور ملک کی تباہ شدہ معیشت ہے۔
Published: undefined
بحران کئی متنوع عوامل کا نتیجہ
جنگی تباہ کاریوں اور اقتصادی بد حالی کے علاوہ یمن کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو مالی وسائل کی عدم دستیابی اور بے روزگاری کی بہت اونچی شرح کا سامنا بھی ہے۔ ان عوامل کے باعث عام شہریوں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ اپنے لیے وہ کمیاب اشیائے خوراک خرید سکیں، جن کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
Published: undefined
سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت قریب 16 ملین یمنی شہریوں کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے جن حالات کا سامنا ہے، انہیں ’بحران‘ سے لے کر ’ایمرجنسی‘ اور ’تباہ کن صورت حال‘ جیسے تین مختلف خانوں میں رکھا گیا ہے۔ لیکن اگر فوری تدارک نہ کیا گیا، تو ان متاثرہ شہریوں کی تعداد بڑھ کر 20 ملین سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یمن کے دو کروڑ سے زائد یا 67 فیصد باشندوں کو ’بحران سے لے کر تباہ کن حد تک‘ بھوک کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
کل جماعتی عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ
یمنی تنازعے کے حل کی کوششوں کے دوران سویڈن میں ہونے والے مذاکرات میں یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندے محمد عبدالسلام نے آج ہفتہ 8 دسمبر کے روز مطالبہ کر دیا کہ اس عرب ریاست میں ایک ایسی عبوری قومی حکومت قائم کی جانا چاہیے، جس میں تمام ’سیاسی جماعتوں‘ کو نمائندگی حاصل ہو۔
Published: undefined
حوثی باغیوں کے مذاکراتی نمائندے نے یہ بات سویڈن میں روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان مذاکرات کے موقع پر کہی جن میں یمن کی اس بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے نمائندے بھی شریک ہیں، جسے سعودی عرب کی سیاسی اور عسکری حمایت بھی حاصل ہے۔
Published: undefined
محمد عبدالسلام نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ یمنی بندرگاہی شہر الحدیدہ کو جنگی فریقین کے مابین قبضے کی کشمکش کا مرکز بنائے رکھنے کے بجائے ایک ’غیر جانبدار علاقہ‘ قرار دے دیا جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز