دبئی: ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اورخلیج تعاون کونسل(جی سی سی) میں شامل دوسرے ممالک میں بانجھ پن کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اوریہ عالمی اوسط سے دُگنا ہے، ماہرین نے اس ضمن میں طرززندگی کے انتخاب، غذائی عادات اور غیر تشخیص شدہ طبی حالات کے رجحان کی نشان دہی کی ہے۔
Published: undefined
اے آر ٹی فرٹیلٹی کلینک نے، جس کے جی سی سی بھر میں طبی مراکزہیں،بانجھ پن کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیش نظرپورے خطے میں گہری تحقیق کی۔اس کے اعدادوشمار سے پتاچلتا ہے کہ اگرچہ بانجھ پن کے عالمی تخمینے قریباً 15 فصد ہیں لیکن جی سی سی میں اس کی شرح 35 سے 40 فی صد تک زیادہ ہے۔
Published: undefined
اے آرٹی فرٹیلٹی دبئی کے کلینک کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹرکیرول کوفلان نے العربیہ کو بتایا کہ ’’ہم اپنے خطے میں بنیادی اورثانوی بانجھ پن میں مسلسل اوپر کی طرف رجحان دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ جزوی طورپرثقافتی اور طرز زندگی سے متعلق مسائل ہیں۔ اس کلینک کی تحقیق سے پتاچلا ہے کہ جی سی سی کے مخصوص خطے میں اضافی عوامل موجود ہیں جو بانجھ پن کی شرح میں اضافے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اس تحقیق میں بانجھ جوڑوں کی موجودہ معیاری تشخیص میں خطے کے لیے مخصوص مشاورت اورعلاج کے طریقوں کو شامل کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے‘‘۔
Published: undefined
ڈاکٹر کوفلان نے بتایا کہ عالمی سطح پر موٹاپے میں اضافہ ہورہا ہے اور مشرق اوسط کے خطے میں تو موٹاپے کی شرح میں انتہائی زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔اس کی وجہ سست طرزِزندگی، جسمانی ورزش کی کمی اور زیادہ کیلوری والی غذائیں ہیں۔یہ موٹاپے کی شرح میں عام معاون عوامل ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بلند باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ہارمون کی بے ضابطگیوں اور بیضوی خرابی کا سبب بن رہا ہے اور نتیجۃً بانجھ پن کاخطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ طبی ماہرین کو لوگوں کے طرزِ زندگی کے عوامل پرغورکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ علاج کی کامیابی کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں لیکن حمل کی شرح کو بڑھانے اور مشرق اوسط کی آبادی کی مجموعی صحت اور بہبود کو بہتر بنانے کے لیے اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر کوفلان کے نزدیک عالمی سطح پر بانجھ پن کی بہت سی وجوہات ہیں۔ان میں زچگی کی عمر میں اضافہ، پولی سسٹک اووری سینڈروم، انڈومیٹریوسیس، یوٹرن فائبرائیڈز اور اکثر کم رپورٹ کیے جانے والے مردانہ عوامل بھی شامل ہیں۔
ان کی رائے میں بعض عوامل ہر ملک میں مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کا تعلق آب و ہوا، سماجی، ثقافتی، معاشی یا مذہبی تفاوت سے ہوسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر معاملے کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے اور انفرادی تقاضوں کے مطابق مناسب علاج تجویز کیا جائے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined