امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے شہزادہ شیخ راشد بن حمد الشرقی نے خلیجی ریاست قطر پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ قطری دارالحکومت پہنچ کر انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے اور اس باعث وہ اپنی ریاست کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
پرنس الشرقی متحدہ عرب امارات میں شامل چھوٹی ریاست فُجیرہ کے امیر کے بیٹے ہیں۔ وہ 16 مئی کو قطری دارالحکومت دوحہ پہنچے تھے۔ الشرقی کا کہنا ہے کہ ابو ظہبی کے حکمران سے وہ بعض معاملات پر شدید اختلاف رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر اُن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے یو اے ای کی حکومت پر یمنی جنگ کے تناظر میں تنقید بھی کی ہے۔
دوحہ پہنچنے کے بعد پرنس راشد بن حمد الشرقی نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو بھی دیا۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ اماراتی حکمران بلیک میلنگ اور منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس مناسبت سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے ہیں۔
شیخ راشد نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ اُن کے حکومتی اشرافیہ سے اختلاف کی بنیادی وجہ یمنی مسلح تنازعہ ہے اور وہ اس میں امارات کی فوج کی تعیناتی کے حق میں نہیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات یمنی جنگ میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد میں شامل ہے۔
Published: 16 Jul 2018, 3:42 PM IST
سیاسی پناہ کے متلاشی پرنس الشرقی نے یہ بھی کہا کہ اس لڑائی میں ہلاک ہونے والے امارتی فوجیوں کی تعداد محض ایک سو کے لگ بھگ بتائی گئی ہے جب کہ حقیقت میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور سب سے زیادہ مرنے والے فُجیرہ ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے متحدہ عرب امارات کے حکام سے اس تناظر میں رابطہ بھی کیا۔ اس رابطے کے جواب میں اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش نے مبہم الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکمران خاندان کے خلاف ایک سازش ہے اور ايسا وہ حلقے کر رہے ہيں جو سامنے آ کر بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ قرقاش کے مطابق ایسے بزدل لوگ صرف انٹرویز دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں سات ریاستیں شامل ہیں اور ابو ظہبی سب سے امیر ریاست تصور کی جاتی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ قطر کے اپنے ہمسایہ ریاست یو اے ای کے ساتھ گزشتہ برس سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ قطری سفارتی تنازعے میں متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب، بحرین اور مصر بھی شامل ہیں۔
Published: 16 Jul 2018, 3:42 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Jul 2018, 3:42 PM IST
تصویر: پریس ریلیز