یواے ای کی وزارت خارجہ نے ایک بیان مین کہا ہے کہ یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں مقدس مقام کو’’مکمل تحفظ‘‘ مہیا کیا جانا چاہیے۔اس نے ’’وہاں ہونے والی سنگین اور اشتعال انگیز خلاف ورزیوں کو روکنے‘‘کا مطالبہ کیا ہے۔
Published: undefined
مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے اور اردن کے زیر انتظام ہے۔ غیر مسلموں کو اس مقام پر جانے کی اجازت ہے ، لیکن انھیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔یہودی اسے ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں۔وہ اسے مقدس مقام گردانتے ہیں اور وہ وہاں بہ زور دراندازی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
Published: undefined
اماراتی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی کو روکیں اور خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کو بڑھاوا دینے سے گریز کریں۔ بیان میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایسے تمام طریقوں کو مسترد کرنے کی تصدیق کی گئی ہے جو بین الاقوامی جواز سے متعلق قراردادوں کے منافی ہیں اور مزید کشیدگی کا سبب بن سکتے ہیں۔
Published: undefined
یہود نے مسجد اقصیٰ پر یہ چڑھائی اپنے نئے سال روش ہاشناه کے آغاز کے موقع پر کی ہے اور یہ ان کی روایت کے عین مطابق کی ہے۔متحدہ عرب امارات باقاعدگی سے ان تمام اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتا ہے جو فلسطینیوں کو متاثر کرتے ہیں یا تنازع کا شکار علاقے میں بدامنی کو ہوا دیتے ہیں حالانکہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان 2020 میں معاہدہ ابراہیم پر دست خط کے بعد سے تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے اور انھوں نے 15 ستمبر کو اس کی تیسری سالگرہ منائی ہے۔
Published: undefined
قبل ازیں سعودی عرب نے بھی سوموار کو ایک بیان میں مسجد اقصیٰ پرانتہا پسند یہودیوں کے دھاوے کی مذمت کی تھی۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق ،’’وزارتِ خارجہ اسرائیلی قابض افواج کے حفاظتی حصار میں انتہاپسندوں کے ایک گروپ کے مسجد اقصیٰ پر حملے کی مذمت کرتی ہے‘‘۔
Published: undefined
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایسے اقدامات تمام بین الاقوامی اصولوں اور کنونشنوں کی صریح خلاف ورزی ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہیں۔
Published: undefined
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پرلانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ تاہم وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے گذشتہ ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ عمل تنازع فلسطین سمیت دیگر امور کی وجہ سے بدستور پیچیدگی کا شکار ہے۔
Published: undefined
دریں اثنا خلیج تعاون کونسل کے رکن دونوں ہمسایہ ممالک نے اپنے بیانات میں امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کی ضرورت کا اعادہ کیا اور ایسے طریقوں کو ختم کرنے پر زوردیا جو دو ریاستی حل کے لیے خطرہ ہیں۔اس دیرینہ تنازع کے کسی ایسے ممکن حل کی صورت میں 1967 کی سرحدوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوگی جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔ مصر، یمن اور اردن نے بھی انتہاپسند یہود کی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں دراندازی کی مذمت میں اس طرح کے بیانات جاری کیے ہیں۔ (بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز