الریاض: سعودی عرب کے بعض علاقوں میں قدیم تہذیبوں کی باقیات اور آثار قدیمہ نے دور حاضر کے ماہرین کو بھی حیران کر دیا ہے۔ یہ قدیم باقیات سائنسدانوں اور آثارقدیمہ کے ماہرین کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کررہی ہیں۔ سعودی عرب میں مختلف ادوار میں یہ باقیات سامنے آئی ہیں۔
پتھر کی تنصیبات کے بارے میں ماہرین کی آرا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض ماہرین انہیں قبروں کی نشانیاں قرار دیتے ہیں جب کہ بعض دوسرے انہیں مسافروں کے لیے راستے کی سمت متعین کرنے کی 'نشانات راہ' قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پتھروں کے قریب سے قافلوں کے گذرنے کے نشانات سے پتا چلتا ہے کہ یہ راستے کی نشانیاں ہیں۔ بعض ماہرین انہیں صحرا میں شکارگاہیں قرار دیتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہاں پر کسی زمانہ میں کھیتی باڑی کی جاتی تھی اور یہ پتھر ان کھیتوں کی باڑوں کے ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک رائے یہ ہے کہ یہ پتھر قدیم زمانے میں انسانوں اور حیوانوں کی جھونپڑیوں کے ہو سکتے ہیں۔
Published: undefined
سعودی عرب میں آثار قدیمہ کے نمائندہ ادارے کے طور پر وزارت ثقافت نے ان آثار قدیمہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔ ان کی تحقیق کی جستجو کے لیے مقامی، علاقائی اور عالمی ماہرین کی ٹیمیں اس علاقے کے دورے کرتی اور ان پر تحقیق کرتی رہی ہیں۔ ان پتھروں کی ماہیت اور ماضی میں ان کے استعمال کے بارے میں اختلاف لے علی الرغم ماہرین ان پتھروں کی باقیات کو مملکت میں قدرت کا ایک عجائب گھر قرار دیتے پر اتفاق کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں سامنے آنے والی پتھر کہ یہ باقیات جزیرۃ العرب میں اب تک دریافت ہونے والے 868 مقامات کا حصہ ہیں جن میں سے بعض سات ہزار قبل مسیح بتائی جاتی ہیں۔
Published: undefined
ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں دریافت ہونے والی پتھروں کی تنصیبات کی باقیات مختلف ادوار میں سامنے آئی ہیں اورانہیں بعض ماہرین نے ماضی بعید میں انسانی تعمیرات کی علامتیں قرار دیا ہے۔ ان میں سے بعض کی فضا سے لی گئی تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قدیم تہذیبوں کی بچ جانے والی نشانیاں ہیں جو آج کی جدید تہذیب کو دعوت فکر دے رہی ہیں۔ ان میں بعض دسیوں کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔
Published: undefined
سعودی عرب میں پتھرسے بنی ان املاک پر توجہ پہلی عالمی جنگ کے بعد دیکھی گئی۔ بعض ماہرین نے انہیں اسلامی ثقافت کے راستوں اور جغرافیائی مقامات کاثبوت قرار دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد دو برطانوی ہوابازوں نے بھی ان مقامات پر توجہ دی اور ان کے نوٹس تیار کیے۔ اسی طرح برطانوی سیاح جون فیلبی نے بھی مملکت میں پائے جانے والے مقامات کی نشاندہی کی۔ سنہ 1950ء اور 1960ء کے عشروں میں غیر ملکی ماہرین کے وفود نے ان مقامات پرتحقیقات کیں۔ سنہ 1970ء کے اوائل سے 1990ء کے اختتام تک سعودی عرب میں مقامی سطح پر ان تاریخی مقامات کا سروے کرایا گیا۔
Published: undefined
اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد شاہ عبدالعزیز ریسرچ سینٹر نے سعودی اور آسٹریلوی ماہرین بالخصوص ڈیوڈ کینیڈ کی قیادت میں صحرا میں پائے جانے والے ان پتھروں کے جائزے اور تحقیقات کا کام شروع کیا۔
تحقیقات کے دوران ماہرین اس نتیجے تک پہنچے کہ پتھر کے یہ ڈھانچے چھ اقسام پر مشتمل ہیں۔ کچھ قبریں ہیں غالبا قبل از اسلام قائم کی گئیں۔ اس کے علاوہ کچھ علامات برجوں اور میناروں کی ہیں جب کہ بعض تیراندازی کی تنصیبات کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں۔ ان میں بعض چوڑی، بعض گول، کچھ مستطیل اور کچھ کھلی تنصیبات تھیں۔
Published: undefined
ان میں پتھروں سے بنائی جانے والی کچھ تنصیبات کانسی دور کی ہیں، بعض آہنی دور، کلاسیکی دور، رومی سلطنت اور اسلامی دور کی باقیات ہیں۔ یہ تنصیبات الجوف کے علاقے عقیلہ المشعان بسکاکا کے علاقے میںپائی گئی ہیں۔
دوسری قسم کی تنصیبات شکار گاہوں کے لیے بنائی گئیں جن میں کچھ طویل دیواروں کی شکل میں ہیں۔ کچھ دیواریں دائرے کی شکل میں ہیں جب کہ بعض دیواریں 100 میٹر قطر اور 5 کلو میٹر پر موجود ہیں۔
(العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined