کیا سعودی عرب اور اسرائیل کا کوئی آپسی سمجھوتہ ہو سکتا ہے؟ سعودی عرب نہ صرف ایک اسلامی ملک ہے بلکہ اسلام کی دو سب سے اہم اور باحرمت مراکز خانہ کعبہ (مکہ) اور مسجد نبوی (مدینہ) کا نگہبان بھی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نہ صرف ایک مذہبی بنیادوں پر قائم یہودی ملک ہے بلکہ وہ ملک بھی ہے جو قبلہ اول پر قابض ہے اور جس نے سنہ 1949 سے اب تک فلسطینیوں پر قیامت ڈھا رکھی ہے۔ اس سیاسی پس منظر میں بھلا سعودی عرب اور اسرائیل کبھی ایک دوسرے کے حلیف ہوں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
لیکن سیاست میں ایک مقولہ ہے کہ یہ (سیاست) وہ کھیل ہے جس میں نہ کوئی ابدی دشمن ہوتا ہے اور نہ کوئی ابدی دوست ہوتا ہے۔ سیاست مفاد پر مبنی روز ایک نئی شکل لینے والا پیشہ ہے جس میں کل کا دشمن آج کا دوست اور آج کا دوست کل کا دشمن ہو سکتا ہے۔
سعودی عربیہ میں ان دنوں سیاست کا وہی کھیل جاری ہے۔ کل تک شہزادہ محمد بن سلمان کے جو چچازاد بھائی تھے وہی آج محمد بن سلمان کی قید میں ہیں۔ اگر خبروں پر یقین کیجیے تو اسی طرح ان دونوں سفارتی سطح پر سعودی عرب اور اسرائیل کے مراسم بڑھ رہے ہیں اور یہ دونوں ملک مل کر عالم عرب کی سیاست میں ایک نیا سیاسی کھیل شروع کر رہے ہیں۔ اس سعودی-اسرائیلی سفارتی اتفاق کے پیچھے ’دونوں کا متحد دشمن ایران ہے‘ جو تیزی سے ایک دوسرے کا حریف بنتا جا رہا ہے۔
انگلینڈ کے مشہور جریدے ‘Spectator’ نے اپنی ویب سائٹ پر سعودی اور اسرائیلی مفاہمت کی یہ دھماکہ خیز خبر اس سرخی کے ساتھ لگائی ہے ‘Saudi Arabia has united with Israel against Iran – and a desert storm in brewing.’ اس خبر کو لکھنے والے صحافی کا نام John R. Bradley ہے جو سعودی سیاست پر کئی کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔
بریڈلے ‘Spectator’کی رپورٹ میں لکھتے ہیں ’’یہودی ریاست سعودی عربیہ کی فطری حلیف تو نہیں ہے لیکن ان دونوں (سعودی-اسرائیل) کا ایک متحدہ دشمن ہے،ایران۔ دونوں کو اس (ایران) سے آئی ایس آئی ایس (ابو بکر کی خلافت) کے زوال کے بعد یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ ایران اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پھر بشار الاسد کی فتح سے ایران (اس پورے) خطے میں چھا سکتا ہے۔ (ویسے ہی) ایران اور اس کے حوارین (ہوتی یمن میں اور حزب اللہ شام میں) اس وقت اپنے عروج پر ہیں۔ اور یہ بات نہ تو سعودی عرب اور نہ ہی اسرائیل خاموشی سے برداشت کر سکتا ہے۔‘‘
‘Spectator’ اسی رپورٹ میں آگے لکھتا ہے ’’اس لیے دونوں (سعودی اور اسرائیل) آپس میں ایک دوسرے کے نزدیکی رابطے میں ہیں۔ سفارتی سطح پر اور سیکوریٹی انٹلیجنس اور شاید دیگر معاملات میں بھی۔ اسرائیلی میڈیا میں ابھی حال میں یہ خبر آئی تھی کہ خاموشی سے ایک سعودی شہزادہ ، یہودی ریاست کے دورے پر آیا تھا اور غالباً وہ شہزادہ کوئی اور نہیں بلکہ شہزادہ محمد بن سلمان خود ہی تھے۔ سعودی-اسرائیل اتحاد دونوں ہی ممالک میں ایک controversial مسئلہ ہے لیکن اب ان دونوں کے خاموش اتحاد کی تفصیل افشا ہونا شروع ہو چکی ہے۔‘‘
’’حالیہ (سعودی) پاگلپن کے درمیان یکایک یہ خبر سامنے آئی کہ لبنانی وزیر اعظم سعد بن حریری (جو سعودی پٹھو ہیں) نے استعفیٰ دے دیا۔ ان کو (حریری) ریاض طلب کیا گیا ، جہاں ان کو اپنا استعفیٰ پڑھ کر سنانے کے لیے مجبور کیا گیا اور اس کا سرکاری سبب یہ بتایا گیا کہ ان کو حزب اللہ کے ہاتھوں مارے جانے کا خطرہ تھا۔ لیکن بھلا کسی دوسرے ملک کا وزیر اعظم کسی غیر ملک میں بیٹھ کر کیوں استعفیٰ دے گا۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ وہ (حریری) جب تک ریاض پہنچے نہیں تھے تب تک ان کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کیوں بلائے گئے ہیں۔ دراصل سعودی حریری سے اس بات پر سخت برہم تھے کہ انھوں نے چند روز قبل ایرانی اور حزب اللہ افسران سے ملاقات کی تھی۔ حریری کے یکایک استعفیٰ سے پورا خطہ حیرت زدہ ہے۔‘‘
میگزین ‘Spectator’ اپنی اس رپورٹ میں آگے بیان کرتا ہے ’’لیکن اس خبر (حریری کے استعفیٰ) سے اسرائیل میں کوئی حیرت نہیں تھی۔ (اسرائیل میں) ایک سفارتی دستاویز کے ‘Leak’ سے یہ ظاہر ہے کہ اسرائیلی سفارت کاروں کو اس سلسلے میں یہ حکم دیا جا چکا تھا کہ اس (لبنان) معاملے میں سعودی عرب جو کہتا ہے وہ اس کی ہی حمایت کریں اور (یمن کے معاملے میں بھی) سعودی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے حوتیوں کی مذمت کریں۔ حالانکہ کئی ایسے (سعودی-اسرائیلی) اتحاد کے خطرناک اثرات ہو سکتے ہیں اور عام سعودیوں میں اس کا خطرناک رد عمل بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ پشتوں سے سعودیوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی خنزیر کی اولاد ہیں اور اسرائیل ان کا ابدی دشمن ہے...۔‘‘
اس نئے سعودی-اسرائیلی کھیل میں واقعی کون کس کا دشمن ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اگر ‘Spectator’ کی یہ خبر درست ثابت ہوتی ہے تو یمن سے لے کر لبنان تک پورے خطے میں جلد ہی عراق جیسا کوئی طوفان کھڑا ہو سکتا ہے، جس کو اس رپورٹ میں ‘Desert Storm’ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
Published: 11 Nov 2017, 8:45 AM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Nov 2017, 8:45 AM IST