سعودی عرب نے باضابطہ طور پرمجرموں کو تعزیر میں کوڑے مارنے کی سزا ختم کردی ہے۔ سعودی عرب کی وزارتِ عدل نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’اب کوڑوں کے متبادل کے طور پر جیل یا جرمانے یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ عدالتیں مقدمات کی سماعت کریں گی، ان کا جائزہ لیں گی اور ہر مقدمے کا اس کی نوعیت کے اعتبار سے منصفانہ فیصلہ کریں گی۔‘‘
Published: undefined
سعودی عرب کے وزیر انصاف ولید السمعانی نے اس ضمن میں منگل کو تمام عدالتوں کو ایک سرکلر جاری کردیا ہے اور اس میں انھیں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے کہ عدالتوں کو تعزیر کے طور پر اب کوڑے لگانے کی سزا دینے کے بجائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دینی چاہییں۔
Published: undefined
سعودی عرب کی عدالتِ عظمیٰ نے اپریل میں ماتحت عدالتوں کے نظام میں ایک شاہی فرمان کے تحت کوڑوں کی سزا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ کے جنرل کمیشن نے عدالتوں کے لیے رہ نما اصولوں پر مبنی ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔ اس میں انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ مختلف تعزیری جرائم کے مرتکب افراد کو اب کوڑے مارنے کے بجائے صرف جرمانہ عاید کرسکتی ہیں یا قید کی سزا سنا سکتی ہیں یا بیک وقت یہ دونوں سزائیں سنا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ تعزیر کے زمرے میں ایسے جرائم آتے ہیں جن کی شریعت اسلامی نے سزا (حد) مقرر نہیں کی ہے اور قاضی (جج) قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے ان کی سزاؤں کا تعیّن کرسکتا ہے۔
Published: undefined
سعودی عرب کے انسانی حقوق کمیشن نے کوڑوں کی سزا کے خاتمے کا خیرمقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک اہم عدالتی اصلاح ہے۔ اس کا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد کی براہِ راست نگرانی میں نفاذ کیا گیا ہے۔ یہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی جانب ایک تاریخی قدم ہے۔ یہ گزشتہ پانچ سال کے دوران میں کی جانے والی انسانی حقوق کی ستر اصلاحات میں سے ایک ہے۔
Published: undefined
کمیشن کے مطابق ’’اس عدالتی اصلاح سے سعودی عرب میں مقیم شہریوں اور مکینوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، خواتین، ورکروں، نوجوانوں اور ضعیف العمر افراد سمیت سب کا معیار زندگی بلند ہوگا۔‘‘ سعودی کمیشن کا کہنا تھا کہ مملکت میں ایک عرصے سے اس بات پر اتفاق رائے پایا جارہا تھا کہ کوڑوں کی سزا موجودہ صورت حال سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ بہت سے مقدمات میں تو جج صاحبان خود ہی قانون کی تشریح کرتے ہوئے ملزموں کو کوڑے مارنے کی سزا سنارہے تھے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے گزشتہ ماہ ایک فرمان کے ذریعے 18 سال سے کم عمر میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سنائی گئی سزائے موت بھی ختم کردی تھی۔ سعودی عرب کے انسانی حقوق کمیشن کے صدر عواد العواد نے اس شاہی فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اگر کسی فرد (مرد یا عورت) نے نوعمری میں کسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی تھی تو اب اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا اور اس کا سرقلم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بجائے اس کو دس سال تک قید کی سزا سنائی جائے گی۔‘‘
Published: undefined
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) سے وابستہ انسانی حقوق کے ایک گروپ نے سعودی عرب میں مختلف جرائم پر کوڑوں اور نوعمروں کو سنگین جرائم پر سنائی گئی سزائے موت کے خاتمے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔
Published: undefined
اوآئی سی کے تحت آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ان تبدیلیوں سے سعودی عرب کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے تقاضوں اور اسلام کے فلسفہ انصاف کے اصولوں کے مطابق داخلی قانون سازی کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘
(العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز