جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے پیر کو اسرائیل سے درخواست کی ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت کو نظر انداز نہ کرے۔ انجیلا مرکل کے 16 سالہ دور میں ان کا اسرائیل سے واحد تنازع ہی یہی تھا کہ وہ فلسطین اور اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کی حامی تھیں لیکن اس کے علاوہ انہوں نے ہر سطح پر اسرائیل کی بھرپور حمایت کی ہے۔
Published: undefined
اسرائیلی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انجیلا مرکل نے اسرائیل اور چار عرب ممالک کے درمیان گزشتہ سال طے پانے والے تاریخی سفارتی معاہدوں کا خیرمقدم کیا لیکن کہا کہ ابراہیم معاہدے کے نام سے مشہور اس معاہدے کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے کی اسرائیل کی ضرورت ختم نہیں ہوتی۔
Published: undefined
انجیلا مرکل نے تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ برائے نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے ایک پینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فلسطینیوں کو جینے کا موقع دینے کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہیےاور کسی بھی حالت میں ایسا نہیں ہے کہ دو ریاستی حل کے مسئلے کو نظر انداز کیا جائے۔
Published: undefined
ڈان کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر ٹرمپ انتظامیہ کی بدولت طے پانے والے ابراہیم معاہدے کی اس کے حامیوں نے تعریف کی ہے جہاں اس سے قبل یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اسرائیل، فلسطینیوں کے ساتھ معاہدہ پانے سے قبل عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نہیں بنا سکتا۔
Published: undefined
اسرائیل کے نئے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ اسرائیل کے زیر قبضہ زمینوں پر فلسطینی ریاست کے قیام کے سخت مخالف ہیں اور انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے اور اس کے بجائے انہوں نے تناؤ میں کمی کرنے کے لیے فلسطینیوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔
انجیلا مرکل نے نفتالی بینیٹ کے ارادوں کا خیرمقدم کیا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ یہ نقطہ نظر کافی نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ اسرائیل کے عرب ممالک سے بہتر تعلقات کے بعد بھی ایک طویل عرصے سے چلنے والا مسئلہ فلسطین ایجنڈے سے غائب نہیں ہوگا۔
Published: undefined
پورے دورے کے دوران انجیلا مرکل کا اسرائیل کے دوست کی حیثیت سے بھرپور استقبال کیا گیا جہاں ان کے ایجنڈے میں اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں اور اسرائیل کی قومی ہولوکاسٹ یادگار ید وشم پر قیام بھی شامل تھا۔جرمن چانسلر نے بحیثیت جرمنی کی جانب سے متعدد مرتبہ اسرائیل کی سلامتی کے عزم کا دعویٰ کیا ہے اور امیٖد ظاہر کی ہے کہ اگلی جرمن حکومت بھی یہی موقف اختیار کرے گی۔
Published: undefined
ایجنڈے میں ایک اہم مسئلہ ایران کا ایٹمی پروگرام تھا، جرمنی ان عالمی طاقتوں میں سے ایک تھا جس نے ایران کے ساتھ 2015 کے بین الاقوامی جوہری معاہدے پر مذاکرات کیے تھے۔یہ معاہدہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی حمایت سے 2018 میں ختم کردیا تھا، بائیڈن انتظامیہ اسرائیلی اعتراضات پر اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
Published: undefined
اسرائیل ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے، وہ ایران پر پورے خطے میں دشمن عسکری گروہوں کی حمایت جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کا الزام عائد کرتا رہا ہے، لیکن ایران ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔اس دوران ایران نے اپنی ایٹمی سرگرمیوں جیسے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا ہے اور یہ ایک ایسا قدم ہے جو اسے ایٹم بم بنانے کے قریب لے جا سکتا ہے۔
Published: undefined
انجیلا مرکل نے کہا کہ ایران سے مذاکرات کرنے والی عالمی طاقتوں کے درمیان اختلافات سے ان کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے اور اس کی بدولت ایران کو وقت ملا ہے اور اس نے پورے علاقے میں اپنی فوجی سرگرمیوں کو وسعت دی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ ایران یہ جانتا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں ایک انتہائی سنگین صورتحال کا سامنا ہے، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے لیکن روس اور چین سمیت اہم فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایران کے خلاف سخت مؤقف اختیار کریں۔ انجیلا مرکل نے کہا کہ جتنے زیادہ ممالک یہ موقف اپنائیں گے کہ وہ ایران کے عزائم اور جارحیت کو قبول نہیں کرتے، خطے کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز