امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ جوزف بائیڈن کی جیت نے مشرق وسطیٰ میں امن کی سابقہ بے ہنگم کوششوں کو مربوط کرنے کے امکانات پیدا کر دیئے ہیں۔
Published: undefined
ماہرین کے مطابق اسرائیل اور امریکہ کے مضبوط تعلقات پر جہاں کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا وہیں فلسطینیوں کے ساتھ معاملات میں جوبائیڈن کی قیادت والے امریکہ کو وہ دشواری پیش نہیں آئے گی جو مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کے زمانے میں مظہر تھی۔
Published: undefined
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو جہاں اس کا ادراک ہے کہ امریکہ کی پالیسیاں یکسر تبدیل نہیں ہوں گی، وہیں ممکن ہےان پالیسیوں میں یکطرفگی کی اب وہ جھلک نہیں ہوگی جو عرب دنیا خاص طور پر فلسطینیوں کو مایوس کر دیتی تھی۔
Published: undefined
یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دار الحکومت تسلیم کرنے کاجہاں تک سوال ہے تو یہ محض مسٹر ٹرمپ یا امریکہ کے مان لینے سے ممکن نہیں۔ جو بائیڈن بھی اپنی انتخابی مہم میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے سفارت خانہ یروشلم لے جانے کے اقدام کو تبدیل نہیں کریں گے بلکہ اسرائیل سے منسلک مشرقی یروشلم میں پھر سے ایک قونصل خانہ دوبارہ کھولیں گے تاکہ فلسطینیوں کو شامل کیا جاسکے۔
Published: undefined
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ اس لئے لاینحل بنا ہوا ہے کہ اسرائیل اور حماس کا رُخ کبھی مذاکرات کی کسی میز کی طرف نہیں رہا۔ ردعمل کی سیاست نے دونوں کو تزویراتی قدم اٹھانے سے محروم رکھا ہے۔اسی طرح گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی کی مسٹر ٹرمپ کی طرف سے یکطرفہ تائید، شام کی خانہ جنگی کے تعلق سے سابقہ امریکی موقف اور غرب اردن میں یہودیوں کو آباد کرنے کے معاملے کو دیکھنے اور سمجھنے سے گریز کے چار سال کسی طور مشرق وسطیٰ کے مسائل کے جامع حل کے رُخ پر نہیں رہے۔ ایک سے زیادہ عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے امن معاہدے کو اور موثر بنایا جا سکتا تھا اگر شاکی حلقوں کو بڑھ کر اعتماد میں لیا گیا ہوتا۔
Published: undefined
ماہرین کے مطابق اسرائیل کی اکثریت ٹرمپ کو فاتح دیکھنا چاہتی تھی اور عربوں کی اکثریت تبدیلی کے حق میں تھی۔ کہتے ہیں متحرک تبدیلی کسی بھی طرح کے جمود سے بہتر ہے۔ امریکی انتخابی نتائج نے اس طرح اسرائیل اور عربوں بشمول فلسطینیوں کو متحرک کر دیا ہے۔ اسرائیل کے تحفظ کی یقین دہانی کا پاس رکھنے کیساتھ جو بائیڈن کی جہاں دیدہ شخصیت انہیں فلسطینیوں کے مسائل کو بھی کسی بندھے ٹکے اصول کے تحت سمجھنے پر مجبور نہیں کرے گی۔
Published: undefined
براک اوبامہ کے زمانے میں نائب صدر کی حیثیت سے مسٹر جابائیڈن نے 2015 کی اپنی ایک تقریر میں الفاظ چبائے بغیر کہا تھا کہ امریکہ اسرائیل کے تحفظ کا پابند ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے یہ الفاظ بلاشبہ اسرائیل کے وجود کے رُخ پر تھے لیکن کسی ایسی توسیع پسندی کے رخ پر نہیں جس کی جھلک مسٹر ٹرمپ کی باتوں میں نظر آتی تھی یا اس طرح کا مفہوم نکالا جا سکتا تھا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ قبل ازیں مسٹر ٹرمپ نے 2015 میں یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ ہوئے نیوکلیائی معاہدے کو ختم کردیا تھا۔ اسرائیل کیلئے یہ اقدام فطری طور پرپسندیدہ تھا لیکن اس اقدام کا عالمی اور علاقائی سیاست پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا اس کا ادراک اسرائیل کے ساتھ عربوں کو بھی ہے۔
Published: undefined
بعض حلقوں کو جو بائیڈن سے توقع ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے رخ پرٹرمپ کے چند اقدامات کو واپس لیں گے خاص طور پر مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کی تعمیر، جسے صدر منتخب ہو نے سے قبل انہوں نے خطے کے لیے رکاوٹ قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی بحالی کریں گے جسے ٹرمپ نے ختم کردیا تھا۔
Published: undefined
اس بیچ فلسطینی انتظامیہ،نے جو بائیڈن اورمنتخب نائب صدر کملا حارث کو مبارکباد دی ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے آنے والی امریکی انتظامیہ سے‘فلسطین امریکہ تعلقات کو بڑھانے‘ پر زور دیا۔ محمود عباس نے مزید کہا کہ وہ (فلسطینی عوام) کی آزادی، انصاف اور وقار کے حصول کے لیے نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز