ایران کے صوبہ اصفہان کے شہر گول پیگان سے خبر ہے کہ وہاں مظاہرین نے مذہبی رہنماؤں کے خلاف شدید نعرہ بازی کی ہے۔ صدر ابراہیم رئیسی بھی ان مظاہروں میں تنقید کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ یہ مظاہرے دوسرے صوبوں خوزیستان، لورستان، چار محل اور بختیاری میں بھی کیے جارہے ہیں۔ ان مظاہروں میں ہزاروں ایرانی احتجاج کر رہے ہیں۔
Published: undefined
ان مظاہروں کی وجہ گزشتہ دنوں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہونے والا غیر معمولی اضافہ ہے، پکانے کا تیل، مرغی، انڈے اور دودھ کی قیمتیں بھی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو رہی ہیں۔ بعض اشیاء کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
Published: undefined
مظاہرین کے مطابق حکومت کے کریک ڈاؤن میں کم از کم 6 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے جب کہ حکام نے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ تاہم ایک قانون دان کے مطابق ایک ہلاکت خوزستان صوبہ میں رپورٹ ہوئی ہے۔
Published: undefined
سرکاری میڈیا میں ایک فوٹیج گردش کر رہی ہے جس میں ایک شہری کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی فائرنگ سے اس کا بیٹا ہلاک ہوگیا ہے۔ یہ مظاہرے چار محل اور بختیاریہ میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
Published: undefined
ان مظاہروں میں اشیائے خوردنی کی مہنگائی کے خلاف احتجاج نے حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کردیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہونے والے احتجاج میں بھی یہ مطالبہ سامنے آتا رہا ہے۔ 2021ء میں پینے والے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے زبردست احتجاج دیکھنے میں آئے تھے ۔ 2019ء اور 2021ء میں ہونے والے مظاہرے غیر ساسی تھے۔ لیکن انہوں نے بھی سیاسی صورت اختیار کرلی تھی اور حکومت کی تبدیلی کے مطالبات ہونے لگے تھے۔
Published: undefined
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایران میں ہونے والے مظاہرے غیر سیاسی تھے۔ ان کی وجہ معاشی ہو یا معاشرتی، یہ بھی سیاسی رنگ اختیار کرگئے تھے۔ العربیہ کے انگریزی ایڈیشن کو فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے سینٹر فیلو نے بتایا تھا کہ حالیہ برس میں ایرانی عوام نے ہر ممکن موقع پر حکمرانوں کے خلاف عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان احتجاجی سلسلوں میں الیکشن کا بائیکاٹ اور طول و عرض میں جلسے اور جلوس بھی شامل رہے ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے ایرانی معیشت کی حالت کمزور ہے۔ افراط زر میں 40 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ 8 کروڑ 50 لاکھ کی آبادی میں سے 50 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ (بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined