خصوصی انٹرویو: کانگریس جنرل سکریٹری کے. سی. وینوگوپال کیرالہ میں اپنے مخالفین کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں

کے. سی. وینوگوپال کو بھروسہ ہے کہ اس انتخاب میں بی جے پی کی شکست ہوگی، ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا انتخابی منشور ہماری طاقت ہے، وزیر اعظم مودی کے پاس صرف فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا ہی ہتھیار ہے۔‘‘

کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال
کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال
user

ایشلن میتھیو

گزشتہ لوک سبھا انتخاب یعنی 2019 میں کیرالہ کی الپوژا سیٹ ہی ایسی واحد سیٹ تھی جہاں سے سی پی ایم امیدوار نے جیت درج کی تھی، لیکن اس بار یہ سیٹ کانگریس کے لیے وقار کی جنگ بن گئی ہے۔ کانگریس نے یہاں سے اپنے جنرل سکریٹری (تنظیم) کے. سی. وینوگوپال کو میدان میں اتارا ہے۔

کے. سی. وینوگوپال الپوژا کو بہت اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں، کیونکہ یہیں سے وہ پہلی بار 1991 میں اسمبلی انتخاب جیتے تھے۔ اس کے بعد 2001 اور 2006 میں بھی انھوں نے یہاں سے جیت درج کی۔ بعد کے لوک سبھا انتخابات یعنی 2009 اور 2014 میں وینوگوپال دو مرتبہ لگاتار یہاں سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے اور 2019 میں انھوں نے انتخاب لڑا ہی نہیں تھا۔ وزیر اعظم مودی سمیت اپنے سبھی مخالفین کو جواب دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ تو 70 کی دہائی سے انتخابی سیاست میں ہیں۔ پی ایم مودی نے ایک بیان میں طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ انتخاب نہیں جیت سکتے، وہ راجیہ سبھا میں جاتے ہیں۔ اس پر وینوگوپال کہتے ہیں کہ انھوں نے 13 سال کی عمر میں پہلا انتخاب جیتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب اسکول کے انتخاب بھی پارٹی لائن پر ہوتے تھے۔

نیشنل ہیرالڈ نے انتخابی تشہیر کی گہما گہمی کے درمیان کے. سی. وینوگوپال سے خصوصی بات چیت کی۔ پیش ہی اس گفتگو کے اہم اقتباسات...

آخر وہ کیا راز ہے جو آپ کو الپوژا کے لوگوں سے سیدھے طور پر جوڑتا ہے؟

الپوژا میں میرے بیشتر ووٹر غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں ان کی ضرورتیں شروع سے ہی سمجھتا ہوں اور ان کے ساتھ گھلا ملا ہوں، میں ان کے درمیان کا ہی ہوں۔ وہ بلاجھجک میرے پاس آتے ہیں، جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے، کوئی ایشو ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں بغیر پارٹی لائن یا مذہبی و نسلی تفریق کے اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے دروازے سبھی کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔ میں اپنی طرف سے ہر کوشش کر ان کی مدد کرتا ہوں اور یہی میرے اور ان کے گہرے روابط کا راز ہے۔

آپ نے یہاں سے پانچ مرتبہ انتخاب جیتا، پھر بھی آپ کے ناقدین کہتے ہیں کہ آپ انتخاب نہیں جیت سکتے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نے بھی آپ پر براہ راست حملہ کیا...

میں نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے، اور میں اب انھیں الٹا چیلنج دیتا ہوں کہ وہ کیرالہ آ کر انتخاب لڑیں اور جیت کر دکھائیں۔ آخر وہ کیرالہ سے کیوں انتخاب نہیں لڑتے۔ میں 5 مرتبہ یہاں سے انتخاب جیتا ہوں اور میں نے 2019 میں انتخاب نہیں لڑا تھا۔ جب میں نے انتخاب نہیں لڑا تو کہنے لگے کہ میں شکست سے ڈرتا ہوں، اسی لیے میں نے یہ چیلنج قبول کیا ہے۔


اگر آپ فتحیاب ہوتے ہیں تو راجیہ سبھا کی جو سیٹ آپ خالی کریں گے، وہ تو بی جے پی آسانی سے جیت جائے گی، کیونکہ ان کے پاس ضروری تعداد موجود ہے۔ اس بارے میں کیا سوچا ہے آپ نے؟

دیکھیے، ہم تو مرکز میں حکومت بدلنے کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں اور وہی ہماری ترجیح ہے۔ اس لیے پارٹی نے مجھے یہاں سے انتخاب لڑنے بھیجا ہے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی کوشش کرنی ہے۔ ابھی راجیہ سبھا میں میری تقریباً ڈیڑھ سال کی مدت کار بچی ہوئی ہے، لیکن اس وقت لوک سبھا میں سیٹیں بڑھانا زیادہ اہم ہے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ راجستھان میں پی ایم مودی نے کھلے طور پر فرقہ واریت پر مبنی تقریر کی، انھوں نے کانگریس کے انتخابی منشور کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ کانگریس اس کا کس طرح جواب دے گی؟

وزیر اعظم کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہے۔ ان کے پاس عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اور ملک میں خطرناک سطح پر پہنچتی بے روزگاری پر کوئی جواب نہیں ہے۔ آج تنہا سرکاری محکموں میں ہی 30 لاکھ عہدے خالی ہیں۔ ضروری چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کو دیکھیے، رسوئی گیس اور ڈیزل کی قیمت دیکھیے۔ مرکزی حکومت نے ان سب کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ آخر حکومت کب کسانوں کی پریشانیوں اور زرعی بحران پر کچھ کرے گی؟ خواتین کی خود مختاری پر کیا کرے گی؟ ان محاذ پر حکومت خاموش ہے۔ وہ صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے فرقہ وارانہ جذبات مشتعل کرتے ہیں، وہ ’تقسیم کرو اور بادشاہت کرو‘ کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔ کیا وزیر اعظم کو انتخاب جیتنے کے لیے طبقات کے درمیان نفرت پھیلانی چاہیے؟ کانگریس کو نفرت کی اس سیاست کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام خود اسے سمجھ رہے ہیں۔

میں ایک مذہبی شخص ہوں اور ہر مہینے گرووَیور مندر جاتا ہوں، لیکن میں اپنی مذہب کی تشہیر نہیں کرتا۔ میرا ایمان، میرا مذہبی عقیدہ مجھے مذہب کے نام پر کسی کی جان لینا نہیں سکھاتا ہے۔ میرا مذہب تو سب کے لیے دعا کرنا سکھاتا ہے۔ بی جے پی والے دراصل بھگوان سے ڈرنے والے لیڈر نہیں ہیں، اگر ایسا ہوتا تو کیا وہ اس طرح نفرت پھیلاتے؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب حقیقی ایشوز سے لوگوں کی توجہ بھٹکانے کے ہتھکنڈے ہیں اور کانگریس ہر طرح سے کوشش کرے گی کہ لوگ اس بہکاوے میں نہ آئیں اور حقیقی مسائل کو پہچانیں۔

پی ایم مودی نے ہمارے انتخابی منشور پر حملہ کیا، ہم نے تو ان سے اسی لیے ملنے کا وقت طلب کیا ہے تاکہ ہم انھیں سمجھا سکیں کہ دیکھو ’نیائے پتر‘ میں کیا لکھا ہے۔ ہم نے اپنے لیڈروں کو کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو کانگریس کا انتخابی منشور بھیجیں۔ ہمارا انتخابی منشور ہی ہمارا اسلحہ ہے، ہماری پانچ گارنٹیاں ’یوا نیائے‘، ’حصے داری نیائے‘، ’مہیلا نیائے‘، ’کسان نیائے‘ اور ’شرمک نیائے‘ ہی ہماری طاقت ہے۔ ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو ان وعدوں کو نبھائیں گے۔


کیرالہ پر واپس آتے ہیں۔ آخر وزیر اعلیٰ پینارائی وجین اپنی تقریروں میں راہل گاندھی کو کیوں ہدف بنا رہے ہیں؟

وجہ صاف ہے، پینارائی وجین جانتے ہیں کہ راہل گاندھی پر حملہ کرنے سے وہ مودی کو خوش کر دیں گے۔ ان کے اور ان کی بیٹی کے خلاف کئی کیسز ہیں۔ انھیں ای ڈی کا خوف ہے اور راہل گاندھی پر بے معنی حملے کر کے وہ مرکزی ایجنسیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دھیان دیجیے کہ اس طریقے سے لیفٹ کا کوئی دیگر سینئر لیڈر راہل گاندھی کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے۔ پینارائی وجین ایک طبقہ کو راہل گاندھی کے خلاف مشتعل کرنا چاہتے ہیں، لیکن کیرالہ کے لوگ جانتے ہیں کہ مودی اور بی جے پی کے سب سے بڑے مخالف راہل گاندھی ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ مودی کے ہتھکنڈوں کا راہل گاندھی کس طرح مقابلہ کرتے ہیں اور وجین کی تقریر ان کی اس شبیہ کو نہیں گاڑ سکتی۔ مینڈیٹ اس بات کو آنے والے دنوں میں صاف کر دے گا۔

کانگریس کا انتخابی منشور سی اے اے کے بارے میں خاموش ہے اور ایل ڈی ایف مسلم ووٹوں کو کوش کرنے کے لیے اسے ایک ایشو بنا رہا ہے۔ آخر انتخابی منشور میں سی اے اے کیوں نہیں شامل کیا گیا؟

کانگریس کا سی اے اے پر رخ بالکل واضح ہے۔ پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے اس بل کے خلاف پارلیمنٹ میں ووٹ دیا تھا۔ راہل گاندھی نے آسام میں صاف طور پر کہا کہ کانگریس اسے کبھی نافذ نہیں ہونے دے گی۔ کوزیکوڈ میں بھی گزشتہ ہفتہ ہی راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس مذہبی بنیاد پر سی اے اے نافذ نہیں کرے گی۔


2021 کے اسمبلی انتخاب میں ایل ڈی ایف نے اقلیتوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے سی اے اے کا استعمال کیا تھا، کیا اس بار بھی یہ داؤ چلے گا؟

نہیں، اس بار یہ نہیں چلنے والا، اس کا امکان 0.1 فیصد بھی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی حکومت کی خامیوں کو چھپانے کے لیے سی اے اے کی آڑ لے رہے ہیں، لیکن کیرالہ کے لوگ ان کی اس چال کو سمجھ گئے ہیں۔

لوک سبھا انتخاب کا پہلا مرحلہ انجام پا چکا ہے اور 102 سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ کانگریس خیمے میں اس تعلق سے کیا ماحول ہے؟

ملک کے موڈ کا اندازہ تو پی ایم مودی کی راجستھان میں کی گئی تقریر سے ہی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ کانگریس نے پہلے مرحلہ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور انڈیا بلاک کے ساتھیوں نے بھی سخت مقابلہ کیا ہے۔ پی ایم مودی کی تقریر اشارہ کر رہی ہے کہ بی جے پی میں خوف اور مایوسی کا ماحول ہے۔


کئی لوگوں نے حال میں کانگریس کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس میں اقتدار کے 5 مرکز ہیں اور ان کے مسائل سنے نہیں جاتے۔ اس پر کوئی تبصرہ؟

دو اسباب ہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے کانگریس کو خیر باد کہا۔ یا تو وہ جانچ ایجنسیوں سے، یا پھر بی جے پی سے ڈرے ہوئے تھے اور پھر سے وہ پیسہ اور اقتدار کے لالچ میں آ گئے۔ ان کے استعفوں سے کانگریس کو فرق نہیں پڑنے والا۔ جب ان لوگوں نے پارٹی چھوڑی تو ان سے کانگریس کے خلاف بیان دلوائے گئے۔ اس سے پہلے تک تو میڈیا ان کا مذاق بناتا رہتا تھا، لیکن اب ان کی خوش آمد ہو رہی ہے۔

کیا کانگریس صرف 300 کے قریب سیٹوں پر انتخاب لڑ کر اور انڈیا بلاک کے ساتھیوں کے لیے جگہ چھوڑ کر کوئی بڑا جوکھم اٹھا رہی ہے؟

ہمارا ہدف بی جے پی مخالف ووٹوں کو ہر جگہ اپنے حق میں کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں قربانی کی ضرورت تھی۔ کچھ مقامات پر اس سے ہمیں تکلیف بھی ہوئی، جیسے کہ مہاراشٹر میں۔ لیکن ہمارا آخری ہدف بی جے پی کو ہرانا ہے۔


اس انتخاب میں کانگریس کتنی سیٹیں جیتے گی، یا جیت سکتی ہے؟

ہم بہت اچھی حالت میں ہوں گے۔ انڈیا اتحاد مرکز میں حکومت بنائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔