الیکشن کمیشن: بغیر دانتوں والا شیر...سہیل انجم

ایک زمانہ تھا جب کمیشن اپنے ایکشن سے یہ ثابت کرتا تھا کہ وہ طاقت ور ادارہ ہے لیکن موجودہ کمیشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ایسا شیر ہے جس کے منہ میں دانت ہی نہیں ہیں یا جس کے دانت نکال لیے گئے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی پابندی کروائے اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرے۔ سپریم کورٹ نے نومبر 2022 میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو حکومت کا ایس مین نہیں ہونا چاہیے، اسے آزاد ہونا چاہیے اور اس میں اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ اگر وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کی ضرورت پڑے تو وہ کارروائی کرے۔ لیکن کیا آج کے الیکشن کمیشن میں اتنی جرأت ہے کہ وہ حکومت تو چھوڑیے حکمرا ں جماعت بی جے پی کے کسی لیڈر کے خلاف بھی کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔ حالانکہ جب چیف الیکشن کمشنر نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کرکے انتخابی پروگرام کا اعلان کیا تھا تو انھوں نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ کوئی بھی شخص جھوٹ بول کر نکل نہیں سکتا۔ کوئی بھی ضابطہئ اخلاق کی خلاف ورزی کرکے گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ لیکن کیا وہ اپنے اس قول پر قائم ہیں۔ اگر حالیہ واقعات پر نظر ڈالیں تو اس کا جواب نفی میں ملے گا۔

جب وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کے بارے میں بہت زیادہ دروغ بیانی سے کام لیا اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے نام پر ڈرانے کی کوشش کی تو ان کے خلاف کمیشن میں شکایت کی گئی لیکن کئی روز کے بعد کمیشن نے بی جے پی صدر جے پی نڈا کو نوٹس جاری کیا اور ان سے جواب طلب کیا۔ جبکہ حقیقتاً اسے وزیر اعظم سے جواب طلب کرنا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کے رہنما انتخابی ضابطہ اخلاق کو مانتے ہیں اس کا بھی جواب نفی میں ملے گا۔ کیونکہ وزیر اعظم مودی نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے جس بیان کو مسخ کر کے اور سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا تھا اور جس پر ان کی شکایت کی گئی تھی اب وہی الزام مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے بھی لگایا ہے۔


انوراگ ٹھاکر وہی وزیر ہیں جنھوں نے دہلی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ”دیش کے غداروں کو۔ گولی مارو……“ کا نعرہ لگایا تھا لیکن ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھیں ا س کا انعام ملا تھا۔ اس وقت وہ وزیر مملکت تھے لیکن اس نعرے کے بعد انھیں کابینہ وزیر بنا دیا گیا۔ اب انھوں نے بھی مسلمانوں کے نام پر ہندوؤں کو ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ہفتے کے روز ہماچل پردیش کے ہمیر پور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس عوام کی دولت ان سے لے کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ تلاش کر لی تھی انوراگ ٹھاکر نے اس میں غیر ملکی ہاتھ ڈھونڈ لیا ہے۔

انھوں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے منشور میں غیر ملکی ہاتھ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ وہ آپ کے بچوں کی دولت مسلمانوں کو دینا، نیوکلیئر ہتھیاروں کو ختم کرنا اور ملک کو ذات برادری اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ حیرت ہے کہ کانگریس کا منشور بنانے والوں کو جو چیز نظر نہیں آئی وہ انوراگ ٹھاکر کو دکھائی دے گئی۔ وہ یہیں پر نہیں رکے بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کے چاروں طرف ٹکڑے ٹکڑے گینگ ہے جس نے اس کے نظریات کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ کی دولت آپ کے پاس رہنی چاہیے یا مسلمانوں کے پاس جانی چاہیے۔ ہم نے مسلمانوں کو برابر کے حقوق دیے۔ لیکن ہم نے انھیں مذہب کی بنیاد پر نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا کہ وہ ان کا حق تھا۔


سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ پر عوام کی دولت چھین کر مسلمانوں کو دینے کی گمراہ کن بات کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ ان کا پورا بیان پڑھیں۔ انھوں نے بھی مذہب کے نام پر اقلیتوں کی بات نہیں کی تھی بلکہ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ حاشیے پر ہیں، دبے کچلے ہیں، حقوق سے محروم ہیں ان کو حقوق دیے جائیں گے۔ اس حوالے سے انھوں نے درج فہرست ذاتوں اور قبائلیوں اور اقلیتوں کا نام لیا تھا اور اس تسلسل میں مسلمانوں کا بھی نام لیا تھا۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ تو کیا دلتوں سے بدتر زندگی گزارنے والوں کو ان کے حقوق نہیں ملنے چاہئیں۔ کیا مسلمانوں کے ان طبقات کو جو سماجی طور پر پچھڑے ہوئے ہیں ان کا حق نہیں ملنا چاہیے۔ اگر نہیں ملنا چاہیے تو وزیر اعظم مودی پسماندہ مسلمانوں کی بات کیوں کرتے رہے ہیں۔

انوراگ ٹھاکر کے بیان پر بجا طور پر کانگریس نے اعتراض کیا ہے اور ان کے خلاف فوری کارروائی کی اپیل کی ہے۔ کانگریس کے مطابق انوراگ ٹھاکر کا بیان شرافت و تہذیب کے منافی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ اگر ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو خلاف ورزی کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور وہ اسی طرح بیان بازی کرتے رہیں گے۔

لیکن الیکشن کمیشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے پاس ریڑھ کی ہڈی نہیں ہے۔ اس میں اتنی جرأت ہی نہیں ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے بی جے پی لیڈروں کے خلاف کوئی ایکشن لے۔ ہاں اس میں یہ طاقت ضرور ہے کہ اگر اس سے بھی معمولی زبان اپوزیشن کا کوئی لیڈر بولے تو اس کے خلاف ایکشن لے۔ وہ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی میں بہت تیز ہے۔ اس وقت اس کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی یاد آ جاتی ہے۔ لیکن جب وہی جرم بلکہ اس سے بھیانک جرم حکمراں جماعت کا کوئی لیڈر کرے تو وہ اپنی نگاہیں پھیر لیتا ہے۔


الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ وہ ایک خود مختار باڈی ہے۔ اس کے پاس جو اختیارات ہیں ان کو حکومت بھی چیلنج نہیں کر سکتی۔ ایک زمانہ تھا جب کمیشن جرأتمندانہ قدم اٹھاتا تھا اور اپنے ایکشن سے یہ ثابت کرتا تھا کہ وہ طاقت ور ادارہ ہے لیکن موجودہ کمیشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ایسا شیر ہے جس کے منہ میں دانت ہی نہیں ہیں یا جس کے دانت نکال لیے گئے ہیں۔ اس نے اپنی آئینی حیثیت کھو دی ہے۔ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ پہلے ہندوستان کے الیکشن کمیشن کو پوری دنیا میں وقار کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن اب اس نے اپنا سابقہ مقام کھو دیا ہے۔ کاش وہ اپنی طاقت پہچان پاتا اور اپنے اندر یہ جرأت لا پاتا کہ قوانین کی دھجیاں اڑانے والوں کی دھجی بکھیر دے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔