بیتے دنوں کی بات: کبھی ہر گھر کی زینت ہوا کرتا تھا پان دان

ان خاتوں کی سب سےزیادہ مرضی پان دان پر چلتی تھی اور وہ یا تو پان خود لگاتی تھیں یا پھر اپنی چہیتی پوتی یا نواسی سے لگوایا کرتی تھیں، مجبوری میں بہو کا نمبر بھی آ جاتا تھا

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

سید خرم رضا

پان بر صغیر اور خاص طور سے شمالی ہندوستانی گھرانوں کا اہم حصہ ہوتا تھا اور پوری دنیا  کی خاطر مدارات ایک طرف اور پان کھلانا ایک طرف! یعنی اگر کسی شخص، خاص طور سے خاتون نے اگر اپنے مہمان سے پان کو نہیں پوچھا تو اس خاتون کی شامت آ جاتی تھی اور کہا جاتا تھا ’کہ کہاں کے بڑے  گھر کے ہیں یا کیسے لوگ ہیں جنہوں نے پان تک کو نہیں پوچھا‘۔ آج تو جب دل چاہا پان کی دوکان جا کر پان کھا لیا اور بہت سے بازاروں میں تو پان دینے والے دوکانوں پر خود پہنچا دیتے ہیں اور ان کا حساب بھی شام کو، ہفتہ میں یا مہینے میں ہوتا ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ دوکان پر لگا ہوا پان بیچنے کا تصور ہی نہیں ہوتا تھا۔

بغیر لگے ہوئے پان کی یا تو مخصوص  دوکانیں ہوتی تھیں یا پھر امراء کی حویلیوں میں پان دینے والے جاتے تھے ۔ کچھ کو بنارسی پسند تھا تو کچھ کو گولٹا پان۔ پان کی تو اتنی اہمیت ہوتی تھی کہ اگر کسی کے بچے کی ولادت ہوتی تھی تو اس کے گھر پان لے کر ہی جایا جاتا تھا  یعنی پان کا دینا ایک مبارک شگون سمجھا جا تا تھا۔ صرف ولادت کی بات نہیں اگر کسی  کے رشتہ کی بات چل رہی ہوتی تھی تو اس میں بھی پان کھلانے کی بہت اہمیت ہوتی تھی۔


پان بنانے میں پان پر کیا کیا لگانا ہے اور اس کے ساتھ کیا پیش کرنا ہے اس کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ پان کے علاوہ کتھا، چونا، تمباکو اور چھالی خاص ہوا کرتی تھیں۔ تمباکو، چونے اور کتھے کی اہمیت بھی ہوتی تھی اور کتنی مقدار میں لگایا جانا ہے  اور ساتھ میں دیا جانا ہے اس کے بارے میں پانے کھانے والے سے پوچھا جاتا تھا کہ کتنا  چونا لگاؤں، کتنا کتھا لگاؤں اور کتنا تمباکو لیں گے یا لیں گی۔ عام طور پر تمباکو اور کٹی ہوئی چھالیاں ایک چھوٹی سی طشتری میں پیش کی جاتی تھی تاکہ کھانے والا اپنی مرضی مطابق تمباکو اور چھالی لے لے۔

اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آ رہا ہوگا کہ ان سب چیزوں کو ایک جگہ کیسے رکھا جاتا تھا اور یہ سوال دماغ میں آنا لازمی ہے۔ جی، ان سب چیزوں کو ایک جگہ رکھنے کے لئے ایک پان دان ہوا کرتا تھا اور جس  پر مالکانہ حق گھر کی بڑی بزرگ خاتون کا ہوتا تھا۔ ان خاتوں کی سب سےزیادہ مرضی پان دان پر چلتی تھی اور وہ یا تو پان خود لگاتی تھیں یا پھر اپنی چہیتی پوتی یا نواسی سے لگوایا کرتی تھیں، مجبوری میں بہو کا نمبر بھی آ جاتا تھا۔ عام طور پر یہ چہیتی پوتی وہ ہوا کرتی تھی جو پان لگانے کے چکر میں دادی یا نانی  کے سب کام  کرتی تھی۔ یہ نوجوان لڑکی پان یوں ہی نہیں لگاتی تھی بلکہ ایک تو اس کی خواہش ہوتی تھی کہ پان لگانے کے بہانے خود بھی پان کھا لے اور تھوڑا خود کو بڑا  سمجھنے کا بھی ذہن میں رہتا تھا کیونکہ بچیوں کو پان کھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، صرف بڑوں کو ہوتی تھی۔ مرد حضرات کے لئے مردانے میں پان لگ کر جایا کرتے تھے۔


پان کا سامان ایک جگہ رکھنے کے لئے پان دان ہوتا تھا۔ جو یا تو آٹھ زاویوں پر مبنی تامنبے، اسٹیل یا چاندی کا بنا ہوا ہوتا تھا یا گول بنا ہوا ہوتا تھا۔ اس پان دان میں ایک خانہ میں چونے کی ڈبیا ہوتی تھی، ایک خانہ میں  کتھے کی ڈبیا، سائڈ میں ایک جانب تمباکو کی اور دوسری جانب چھالی  کی، کتھے اور چونے کی دو خانوں کے برابر ایک خانہ ان کے سامنے بنا ہوتا تھا جس میں یا تو خاتون اپنا ضروری سامان رکھتی تھیں یا اس میں ثابت گول چھالیاں رکھی جاتی تھیں۔  ان سب کو ایک طشتری سے ڈھکا جاتا تھا جس  کے دو کام ہوتے  تھے ایک تو یہ ان کو ڈھکنے کے کام آتی تھی اور دوسرا یہ کہ مہمان کو لگا ہوا پان دینے کے۔ جس میں سائڈ میں تمباکو اور کٹی ہوئی چھالیاں رکھی جاتی تھیں۔ ہاں جب اس سے ڈھکا جاتا تھا تو اس وقت اس پر پان کے ایک اہم آلے یعنی سروطے کو رکھا جاتا تھا۔ سروطے  کا کام چھالی کو چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں کاٹنا ہوتا تھا۔ آج چھالی کو سپاری کہا جاتا ہے۔

پان آج ذائقہ کی چیز بن کر رہ گیا ہے لیکن ایک زمانہ تھا پان نہ صرف کسی گھر کا لازمی حصہ ہوتا تھا  بلکہ سماج کے بڑے بڑے کاموں کے لئے پان کا استعمال ہوتا تھا۔ پان دان علامت تھی کہ گھر کی مالک کون ہے۔ لڑکیوں کو جہاں چھالیوں کا شوق ہوتا تھا وہیں کتھے کی وجہ سے ان کے ہونٹ لال ہو جایا کرتے تھے اور اس زمانہ میں لپسٹک تو ہوتی نہیں تھی اس لئے پان کو چوری چوری کھایا کرتی تھیں۔ جہاں پان دان گھر کی ملکیت یا بزرگ خاتون جن کی مرضی ضروری ہے اس کو ظاہر کرتا تھا وہیں پان دان ان کی پوری دنیا ہوتی تھی کیونکہ اسی میں وہ نیچے کی جانب پیسے اور ضروری کاغذات بھی رکھتی تھیں اور بچے اس میں سے پیسے چرانے کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ یہ بیتے دنوں کی بات ہے  جب پان دان کسی بھی جہیز کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا اور اگر کسی نے پان دان نہیں دیا تو یا تو وہ غریب سمجھا جاتا تھا یا غیر مہذب۔ کبھی ہر گھر کی زینت ہوا کرتا تھا پان دان۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔